قلعہ روہتاس اور شیر شاہ سوری

کچھ لوگ ہماری آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں لیکن ان کی شخصیت کے ان مٹ رنگ ہمیں ان کے وجود کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔ پوٹھوہار کے خطے میں تاریخ کے آثار یہاں وہاں بکھرے ملتے ہیں‘ انہیں میں ایک قلعہ روہتاس ہے۔ یہ جہلم سے تقریباً 16 کلومیٹر اور دینہ سے 6 کلومیٹر کی دوری پر ہے۔ آج میں مدتوں بعد یہاں آیا ہوں‘ تقریباً تین دہائیوں کے بعد۔ اس قلعے کی کہانی عجیب ہے اور اس کو تعمیر کرنے والے کی کہانی عجیب تر۔ اب تو یہاں تک پہنچنے کا راستہ کافی بہتر ہو چکا ہے۔ مجھے یاد ہے جب میں پہلی بار یہاں آیا تھا تو راستے میں پانی کی رکاوٹ تھی جس میں ہماری گاڑی پھنس گئی تھی۔ 1997ء میں قلعہ روہتاس کو ورلڈ ہیریٹیج سنٹر قرار دے دیا گیا تھا‘ جس کے نتیجے میں اس تاریخی ورثے کو محفوظ بنانے کے اقدامات کیے گئے ہیں۔ قلعے کی چوڑی دیوار پر کھڑے ہوں تو دور کے مناظر دکھائی دیتے ہیں۔ اب تو درمیان میں آبادیاں آ گئی ہیں‘ لیکن سولہویں صدی میں جب یہ قلعہ بنا تھا تو اس کو تعمیر کرنے والوں نے جگہ کا سوچ سمجھ کر انتخاب کیا تھا۔

قلعہ جس جگہ تعمیر کیا گیا وہ سطح سمندر سے کافی بلندی پر واقع تھی‘ جس کے قریب ہی پانی کی فراوانی تھی۔ قلعے کی دیوار سے کشمیر سے آنے والا راستہ بالکل نگاہوں کے سامنے آتا ہو گا۔ یہ قلعہ شیر شاہ سوری نے 1541ء میں تعمیر کرنے کا حکم دیا تھا تاکہ ایک طرف مغلوں کے وفادار گکھڑ قبائل پر نظر رکھی جا سکے جہاں سے اس کا حریف ہمایوں کسی وقت بھی واپس آ سکتا تھا۔ وہی ہمایوں جو کبھی ہندوستان میں سلطنتِ مغلیہ کا طاقتور بادشاہ تھا اور شیر شاہ سوری کے ہاتھوں شکست کھا کر ایران بھاگ گیا تھا۔ قلعے کی دیواروں پر موسم سرما کی اجلی دھوپ پھیلی ہوئی ہے اور میں ایک پتھر سے ٹیک لگا کر بیٹھ جاتا ہوں۔ آنکھیں بند کر کے شیر شاہ سوری کا تصور کرتا ہوں جس نے تن تنہا مغلوں کی مضبوط حکومت کو شکست دی تھی۔ اس حیران کن کہانی کی ابتدا 1486ء میں ہوتی ہے جب حسین خان کے گھر ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام فرید خان رکھا گیا۔

جب ابراہیم سور اپنے بیٹے حسین کے ہمراہ پنجاب آئے تو یہ بہلول لودھی کا دور تھا اور انہیں پنجاب میں جلال خان کے پاس ملازمت حاصل کرنے میں کوئی مشکل پیش نہ آئی۔ حسین کی محنت اور وفاداری نے جلال خان کا دل جیت لیا اور اس نے سہسرام، کان پور ٹانڈا، حاجی پور اور خواص پور کی وسیع و عریض جاگیریں حسین کے نام کر دیں۔ یہ حسین کی محنت اور وفاداری کا انعام اور اعتراف تھا۔ یہیں حسین کے گھر فرید خان پیدا ہوا۔ حسین کی اولاد میں سب سے بڑا ہونے کی وجہ سے وہ حسین کا وارث تھا لیکن سوتیلی ماں باپ بیٹے کے درمیان دیواریں کھڑی کرنے میں مصروف رہتی تھی۔ فرید خان اس سارے ماحول سے تنگ آ کر گھر سے چلا گیا۔ ان کی منزل جون پور تھی۔ جون پور اس زمانے میں ثقافت اور علم کا ایک مرکز تھا۔ یہاں فرید خان نے تین سال گزارے اور اس دوران علم و ادب اور عربی و فارسی زبانوں پر دسترس حاصل کی۔

اس کا اگلا پڑائو بہار تھا‘ جہاں بہار شاہ لوہانی کی حکمرانی تھی۔ جلد ہی بہار شاہ کو معلوم ہو گیا کہ فرید خان غیر معمولی صلاحیتوں کا مالک ہے۔ ایک بار جب بہار شاہ شکار پر تھا تو اچانک ایک شیر اس پر حملہ آور ہوا۔ اس سے پہلے کہ شیر اس کو کوئی گزند پہنچاتا فرید خان بجلی کی سی تیزی سے شیر کی طرف لپکا اور اپنی تلوار سے اس کا کام تمام کر دیا۔ موت بہار شاہ کو چھو کر گزر گئی۔ اس واقعے سے بہار شاہ کی نگاہوں میں فرید خان کا رتبہ اور بلند ہو گیا اور اس نے فرید خان کو شیر خان کا خطاب دیا۔ یہ خطاب فرید خان کے لیے خوش قسمتی کا سامان لایا اور پھر تاریخ نے فرید خان کو شیر شاہ سوری کے نام سے یاد رکھا۔ اس کے خواب اب نئی دنیاؤں کے متلاشی تھے۔ اسے اس کا موقع جلد ہی مل گیا۔ ظہیرالدین بابر ایک طوفان کی طرح آیا اور پانی پت کے میدان میں ابراہیم لودھی کو شکست دے کر ہندوستان کا حکمران بن گیا۔

یہ ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کی ابتدا تھی۔ یہ 1526ء کا سال تھا۔ اگلے ہی برس شیر شاہ نے مغلیہ دربار میں اپنی قسمت آزمائی‘ اپنی ذہانت، دلیری اور شجاعت سے مغل فوج میں اپنا مقام بنا لیا‘ بہار پر حملے میں بابر کے ہمراہ حصہ لیا‘ اور اپنی غیر معمولی جنگی مہارت کے جوہر دکھائے۔ شیر شاہ کا مغلیہ فوج میں قیام 1527ء سے 1528ء تک رہا۔ اس دوران اسے مغلوں کے نظامِ سیاست، نظامِ معیشت، عسکری نظام کو بغور پرکھنے کا موقع ملا۔ اس کی دوربین نگاہیں، مستقبل کا وہ منظر دیکھ رہی تھیں جس کا کسی کو اندازہ نہیں تھا‘ سوائے ایک شخص کے جس کا نام ظہیرالدین بابر تھا‘ جو ہندوستان کا حکمران تھا اور جس کے دربار سے شیر شاہ وابستہ تھا۔ ظہیرالدین بابر نے ایک دنیا دیکھی تھی۔ اس نے اپنی فوج کے جنگجو شیر شاہ کی آنکھوں میں وہ سب کچھ دیکھ لیا تھا جو شیر شاہ کے دل کا منظر تھا۔

بابر نے اپنے قریبی رفقا سے کہا کہ شیر شاہ کی کڑی نگرانی کی جائے۔ شیر شاہ بھانپ گیا کہ وہ بابر کا اعتماد کھو چکا ہے۔ ایک دن وہ اچانک واپس بہار پہنچ گیا اور اپنی طاقت میں اضافہ کرنے لگا۔ بہار شاہ لوہانی کا انتقال ہو چکا تھا۔ بہار شاہ کا بیٹا جلال ابھی چھوٹا تھا۔ عملاً شیر شاہ وہاں کا حکمران بن گیا تھا۔ بنگال کے حکمران سلطان محمود نے شیر شاہ پر حملہ کیا لیکن اسے عبرتناک شکست ہوئی۔ ادھر ظہیرالدین بابر کا 1530ء میں انتقال ہو گیا۔ بابر کے بعد اس کا بیٹا ہمایوں تخت پر بیٹھا۔ ادھر شیر شاہ سوری اپنی طاقت میں مسلسل اضافہ کر رہا تھا‘ حتیٰ کہ 1537ء تک شیر شاہ بہار، بنگال اور آسام کا حکمران بن چکا تھا۔ اب ایک بڑی جست لگانے کا وقت آ گیا تھا۔ شیر شاہ نے سلطنتِ مغلیہ سے ٹکر لینے کی ٹھان لی تھی۔ ادھر ہمایوں نے 1532ء میں ہونے والی جنگ میں محمود لودھی کو شکست دی‘ اور اس کے حوصلے بلند تھے۔ 1539ء میں ہمایوں نے آگرہ کی طرف بڑھتے ہوئے دریائے گنگا کو عبور کیا اور چوسہ کے مقام پر اپنا کیمپ لگایا۔

شیر شاہ کو اسی موقع کی تلاش تھی۔ شیر شاہ کی فوج نے ہمایوں کے لشکر پر حملہ کر دیا‘ اور مغلیہ فوج پسپا ہو گئی۔ چوسہ کی جنگ نے شیر شاہ کی برتری ثابت کر دی تھی‘ لیکن فیصلہ کن جنگ اگلے سال قنوج کے مقام پر ہوئی‘ جہاں شیر شاہ کی فوج نے ہمایوں کے لشکر کو عبرتناک شکست دی اور ہمایوں ہندوستان چھوڑ کر ایران کی طرف پسپا ہو گیا۔ یہ 1540ء کا سال تھا جب شیر شاہ سوری پورے ہندوستان کا حکمران بن گیا۔ اسے معلوم تھا کہ مغل اپنی شکست پر خاموش نہیں بیٹھیں گے‘ اسی لیے اگلے سال ہی اس نے قلعہ روہتاس کی تعمیر کا حکم دیا۔ ایک ایسا قلعہ جو کشمیر کے آنے والے راستوں کا نگران ہو۔ شیر شاہ سوری کی حکومت کا دورانیہ صرف 5 برس تھا۔ 1540ء سے 1545ء تک لیکن یہ پانچ سال ہندوستان کی تاریخ میں بہت سے اقدامات کے حوالے سے یاد رکھے جائیں گے‘ جن کے ثمرات ہم آج تک سمیٹ رہے ہیں۔

ان میں سرِفہرست ہندوستان کے مختلف علاقوں میں سڑکوں کی تعمیر تھی۔ ان میں ایک جرنیلی سڑک‘ جسے ہم جی ٹی روڈ کہتے ہیں‘ اسی دور کی یادگار ہے۔ سڑکوں کے کنارے سرائے خانوں کی تعمیر، ہر سرائے کے ساتھ ایک مسجد اور کنواں۔ اسی طرح روپیہ کا آغاز بھی شیر شاہ سوری کے دور میں ہوا۔ شیر شاہ کے زمانے میں امن وامان کا نظام بہتر ہوا، جرائم میں کمی آئی، ڈاک کا نظام متعارف ہوا، مالیہ کے نظام کا اجرا ہوا، تجارت میں ترقی، پیمائش کے پیمانے شروع ہوئے۔ ان سارے کارناموں کو دیکھیں اور پھر یہ دیکھیں کہ یہ سب کچھ محض پانچ سالوں میں کیا گیا تو یقین آ جاتا ہے کہ شیر شاہ ایک غیر معمولی شخصیت کا عسکری علوم کا ماہر اور انتہائی موثر ایڈمنسٹریٹر تھا‘ جس کی پوری زندگی حرکت سے عبارت تھی۔ اس کی موت بھی اس وقت ہوئی جب وہ کالنجر قلعے کا محاصرہ کیے ہوئے تھا اور قلعے کی مضبوط دیواروں کو توڑنے کے لیے بارود کا استعمال کیا جا رہا تھا۔ اپنے ہی بارود کے ایک گولے نے اسے گھائل کر دیا اور وہ جانبر نہ ہو سکا۔ اور آج روہتاس قلعے کی دیوار پہ بیٹھے میں سوچ رہا تھا‘ واقعی کچھ لوگ ہماری آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں لیکن ان کی شخصیت کے ان مٹ رنگ ہمیں ان کے وجود کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔

شاہد صدیقی

بشکریہ دنیا نیوز

Ertugrul

Ertugrul According to Ottoman tradition, he was the son of either Günduz Alp or Suleyman Shah, leader of the Kayı tribe of Oghuz Turks, who fled from western Central Asia to Anatolia to escape the Mongol conquests. According to this legend, after the death of his father, Ertuğrul and his followers entered the service of the Seljuks of Rum, for which he was rewarded with dominion over the town of Söğüt on the frontier with the Byzantine Empire. This set off the chain of events that would ultimately lead to the founding of the Ottoman Empire. Like his son, Osman, and their descendants, Ertuğrul is often referred to as a Ghazi, a heroic champion fighter for the cause of Islam.
Biography
Nothing is known with certainty about Ertuğrul’s life, other than that he was the father of Osman; historians are thus forced to rely upon stories written about him by the Ottomans more than a century later, which are of questionable accuracy. According to these later traditions, Ertuğrul was chief of the Kayı tribe of Oghuz Turks. As a result of his assistance to the Seljuks against the Byzantines, Ertuğrul was granted lands in Karaca Dağ, a mountainous area near Angora (now Ankara), by Ala ad-Din Kay Qubadh I, the Seljuk Sultan of Rûm. One account indicates that the Seljuk leader’s rationale for granting Ertuğrul land was for Ertuğrul to repel any hostile incursion from the Byzantines or other adversary. Later, he received the village of Söğüt which he conquered together with the surrounding lands. That village, where he later died, became the Ottoman capital under his son Osman I. Ottoman historians have differing opinions on whether Ertuğrul had two or possibly three other sons in addition to Osman: Gündüz Bey, and Saru Batu Savcı Bey or Saru Batu and Savcı Bey.
Legacy
A tomb and mosque dedicated to Ertuğrul is said to have been built by Osman I at Söğüt, but due to several rebuildings nothing certain can be said about the origin of these structures. The current mausoleum was built by sultan Abdul Hamid II in the late nineteenth century. The town of Söğüt celebrates an annual festival to the memory of the early Osmans. The Ottoman Navy frigate Ertuğrul, launched in 1863, was named after him. The Ertuğrul Gazi Mosque in Ashgabat, Turkmenistan, completed in 1998, is also named in his honor.
Courtesy : Wikipedia

A hero of our time: : Ertugrul

Ertugrul

Ertugrul According to Ottoman tradition, he was the son of either Günduz Alp or Suleyman Shah, leader of the Kayı tribe of Oghuz Turks, who fled from western Central Asia to Anatolia to escape the Mongol conquests. According to this legend, after the death of his father, Ertuğrul and his followers entered the service of the Seljuks of Rum, for which he was rewarded with dominion over the town of Söğüt on the frontier with the Byzantine Empire. This set off the chain of events that would ultimately lead to the founding of the Ottoman Empire. Like his son, Osman, and their descendants, Ertuğrul is often referred to as a Ghazi, a heroic champion fighter for the cause of Islam.

Biography
Nothing is known with certainty about Ertuğrul’s life, other than that he was the father of Osman; historians are thus forced to rely upon stories written about him by the Ottomans more than a century later, which are of questionable accuracy. According to these later traditions, Ertuğrul was chief of the Kayı tribe of Oghuz Turks. As a result of his assistance to the Seljuks against the Byzantines, Ertuğrul was granted lands in Karaca Dağ, a mountainous area near Angora (now Ankara), by Ala ad-Din Kay Qubadh I, the Seljuk Sultan of Rûm. One account indicates that the Seljuk leader’s rationale for granting Ertuğrul land was for Ertuğrul to repel any hostile incursion from the Byzantines or other adversary. Later, he received the village of Söğüt which he conquered together with the surrounding lands. That village, where he later died, became the Ottoman capital under his son Osman I. Ottoman historians have differing opinions on whether Ertuğrul had two or possibly three other sons in addition to Osman: Gündüz Bey, and Saru Batu Savcı Bey or Saru Batu and Savcı Bey.
Legacy
A tomb and mosque dedicated to Ertuğrul is said to have been built by Osman I at Söğüt, but due to several rebuildings nothing certain can be said about the origin of these structures. The current mausoleum was built by sultan Abdul Hamid II in the late nineteenth century. The town of Söğüt celebrates an annual festival to the memory of the early Osmans. The Ottoman Navy frigate Ertuğrul, launched in 1863, was named after him. The Ertuğrul Gazi Mosque in Ashgabat, Turkmenistan, completed in 1998, is also named in his honor.
Courtesy : Wikipedia

سلطان محمد الپ ارسلان : ایک متقی اور پرہیز گار حکمران

الپ ارسلان نے اپنے چچا طغرل بیگ کی وفات کے بعد زمام اقتدار اپنے ہاتھ میں لی۔ اگرچہ اقتدار کی خاطر ملک میں کچھ جھگڑے ہوئے لیکن الپ ارسلان نے ان تنازعات پر بروقت قابو پا کر حالات کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ الپ ارسلان اپنے مرحوم چچا طغرل بیگ کی طرح ایک نہایت مدبر، تجربہ کار لیڈر اور جرأت مند شخصیت کا مالک مخلص قائد تھا۔ اس نے ملکی سرحدوں کو وسیع کرنے کے لیے ایک نہایت ہی دانشمندانہ پالیسی اختیار کی، جو علاقے سلجوقی سلطنت کے زیرنگیں تھے، پہلے ان کے استحکام کو یقینی بنایا اور اس کے بعد بیرونی دنیا کی طرف پیش قدمی کی۔ سلطان الپ ارسلان جہاد فی سبیل اللہ اور اپنی پڑوسی مسیحی سلطنتوں میں اسلام کی اشاعت کے لیے بے قرار رہتا تھا۔ اس کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی کہ ارمن اور روم کے علاقے اسلامی قلم رو میں شامل ہوں۔ 

الپ ارسلان اپنی مملکت کی سرحدوں کو وسیع کرنے سے پہلے سات سال کے عرصہ تک اپنی مملکت کے دور دراز علاقوں کے حالات کا جائزہ لیتا رہا اور جب ان علاقوں میں امن و امان کی صورت حال سے مطمئن ہو گیا تو اپنے عظیم مقاصد کو پائے تکمیل تک پہنچانے کے لیے پلاننگ شروع کر دی۔ ان کے سامنے اب ایک ہی ہدف تھا۔ سلجوقی سلطنت کے پڑوس میں واقع مسیحی علاقوں کو فتح کرنا، فاطمی دولت کے اقتدار کو ختم کرنا اور تمام اسلامی دنیا کو عباسی خلفا اور سلجوقی اقتدار کے جھنڈے کے نیچے متحد کرنا۔ الپ ارسلان نے اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ایک بہت بڑا لشکر تیار کیا اور اس لشکر کی قیادت کرتا ہوا ارمن اور جارجیا کی طرف روانہ ہوا۔ یہ علاقے بہت جلد ان کے ہاتھوں فتح ہوئے۔

الپ ارسلان آگے بڑھا اور شام کے شمالی علاقے پر یورش کی، حلب میں مرداسی حاکم تھا۔ اس سلطنت کی بنیاد 1023ء میں صالح بن مرداس نے رکھی۔ الپ ارسلان نے مرداسی سلطنت کا محاصرہ کر لیا اور اس سلطنت کے فرمانروا محمود بن صالح بن مرداس کو مجبور کیا کہ وہ مصر کے فاطمی خلیفہ کی بجائے عباسی خلیفہ کی حکومت کو تسلیم کرے اور لوگوں کو اس حکومت کے احکامات کا پابند کرے۔ اس کے بعد الپ ارسلان نے ایک ترکی نژاد قائد اتنسزبن اوق خوارزمی کو جنوبی شام پر حملہ کرنے کے لیے بھیجا، خوارزمی نے فاطمیوں سے رملہ اور بیت المقدس چھین لیے لیکن عسقلان پر قبضہ نہ ہو سکا جسے مصری حدود میں داخلہ کے لیے ایک بہت بڑے دروازے کی حیثیت حاصل تھی۔ الپ ارسلان کی فتوحات نے رومی شہنشاہ ڈومانوس ڈیوجیس کو آتش زیرِپا کر دیا اور اس نے پختہ ارادہ کر لیا کہ وہ ہر قیمت پر اپنی شہنشاہیت کا دفاع کرے گا۔ سو اس مقصد کی خاطر اس نے اپنی پوری فوج سلجوقیوں کے خلاف جنگ میں جھونک دی۔ 

رومی اور سلجوقی فوجوں میں کئی خونریز معرکے ہوئے۔ ’’ملاذکرد‘‘ کا معرکہ ان سب میں زیادہ اہم ہے جو اگست 1070ء کو برپا ہوا۔ ابن کثیر لکھتے ہیں ’’اور اس معرکے میں روم کا بادشاہ ڈومانوس پہاڑ کی مانند لشکروں کو لے کر روانہ ہوا۔ ان لشکروں میں روم، روس، برطانیہ اور کئی دوسرے ملکوں کے سپاہی شریک تھے۔ ڈومانوس کی جنگی تیاریاں بھی خوب تھیں۔‘‘ الپ ارسلان کا ایک مختصر سے لشکر، جس کی تعداد 15 ہزار سے زیادہ نہیں تھی، کی مدد سے شہنشاہ روم ڈومانوس کے ایک لاکھ سپاہیوں پر مشتمل بہت بڑے لشکر کو شکست فاش سے دوچار کرنا کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا۔ اس واقعہ نے رومیوں کی کمر توڑ دی۔ الپ ارسلان ایک متقی اور پرہیز گار انسان تھا۔ فتح مادی اور معنوی ہر دو اسباب سے استفادہ کرتا تھا۔ اسلام کا یہ طبل جلیل اور عظیم سپہ سالار ایک باغی کے ہاتھوں شہید ہوا۔ اس باغی کا نام یوسف خوارزمی تھا۔ آپ کا سن وصال 1072ء ہے۔ آپ مرو کے شہر میں اپنے باپ کے پہلو میں دفن ہوئے اور ملک شاہ کو اپنے پیچھے جانشین چھوڑا۔

علی محمد الصلابی

سلطنت عثمانیہ کیوں زوال پذیر ہوئی؟

نیسویں صدی کے آخری عشروں میں اندرونی ریشہ دوانیوں اور بیرونی سازشوں کے نتیجہ میں سلطنت عثمانیہ کی جڑیں کمزور ہو چکی تھیں، اپنے انتہائی عروج کے دور میں یہ سلطنت بڈاپسٹ سے بغداد تک اور کریمیا سے نیل کے ساحل تک پھیلی ہوئی تھی۔ یہ نہ صرف جدید عہد کی سب سے بڑی مسلم ریاست تھی بلکہ اس کا شمار تاریخ کی عظیم ترین اور مدت کے اعتبار سے طویل ترین مسلم مملکتوں میں کیا جا سکتا ہے۔ تقریباً سوا چھ سو برسوں میں 36 سلاطین حکمران رہے۔ سلطنت عثمانیہ بنیادی طور پر فوجی بادشاہت تھی۔ اس دور میں اگرچہ مختلف شعبوں میں بعض اچھے کام بھی ہوئے، رفاہی اداروں اور فنونِ لطیفہ نے خاصی ترقی کی، مگر سلطنت کی ہیئت شخصی حکمرانی اور مطلق العنانی کی تھی۔

اس میں عرب، شامی، عراقی، مصری، بربر، کرد، آرمینی، سلاو، یونانی، البانی…غرضیکہ یورپ اور مغربی ایشیا کی بیشتر قومیں شامل تھیں۔ ان سب کے اپنے اپنے رسم و رواج، تہذیب و تمدن، عقائد اور زبانیں تھیں۔ اس سخت گیر نظام کا واسطہ جب یورپ میں جغرافیائی قومیتوں کے ابھرتے ہوئے تصور سے پڑا تو سلطنتِ عثمانیہ کی بنیادیں ہل کر رہ گئیں۔ عرب علاقوں میں سب سے پہلے شمالی افریقہ نے سلطنت عثمانیہ سے علیحدگی اختیار کی لیکن فرانس نے فوج کشی کر کے الجزائر پر قبضہ کر لیا اور بعدازاں اسے باقاعدہ اپنے ملک کا حصہ قرار دے دیا۔ فرانس اس خطے کو جو اہمیت دیتا تھا اس کا ایک ہلکا سا اندازہ اس امر سے ہو سکتا ہے کہ جب دوسری جنگ عظیم کے دوران 1942ء میں امریکا نے الجزائر میں اپنی فوجیں اتاریں تو فرانسیسی وزیرخارجہ نے اس پر امریکہ سے باضابطہ احتجاج کیا تھا۔

الجزائر کے بعد فرانس نے تیونس کو اپنی توسیع پسندانہ پالیسی کا شکار بنایا۔ 1881 میں اس پر قبضہ کر کے الجزائر کی طرح اس ملک میں بھی عربی کی جگہ فرانسیسی کو سرکاری زبان کی حیثیت سے نافذ کر دیا۔ خطے کے دوسرے ملکوں کی طرح مصر بھی ایک عرصے تک سلطنت عثمانیہ کے زیرنگیں رہا۔ لیکن قسطنطنیہ کے حکمرانوں نے براہ راست کبھی دل چسپی نہیں لی۔ دارالخلافہ کی عدم دل چسپی، درباری سازشوں اور عمالِ حکومت کی بے حسی کے نتیجے میں مصری عوام کی زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی۔ 1619ء کے طاعون میں کوئی ساڑھے تین لاکھ افراد لقمہ اجل بنے۔ 1769ء میں علی بے نامی ایک مقامی سردار نے سلطنت عثمانیہ کے خلاف علم بغاوت بلند کر کے مصر کی آزادی کا اعلان کر دیا۔ یہ وہ وقت تھا جب سلطان قسطنطنیہ روس کے خلاف نبردآزما تھا۔

علی بے نے آگے بڑھ کر شام اور عرب پر قبضہ کر لیا۔ 1798ء میں نپولین بونا پارٹ ایک بڑی فوج کے ساتھ اسکندریہ میں اترا لیکن برطانیہ کے ہاتھوں پے در پے ہزیمت اٹھانے کے بعد مغربی ایشیا سے فرانسیسی عمل دخل کا مکمل خاتمہ ہو گیا۔ نپولین کو شکست دینے والی فوج میں محمد علی نامی ایک نوجوان افسر بھی شامل تھا۔ بعد میں یہی شخص جدید مصر کا بانی کہلایا۔ شام، لبنان اور میسوپوٹامیہ ایک طویل عرصہ تک سلطنت عثمانیہ کا حصہ رہے۔ پھر یورپی طاقتوں کی مداخلت کی وجہ سے ترکوں کا اثر آہستہ آہستہ کم ہوتا گیا۔ لبنان اور شام کے معاملات میں فرانس نے براہ راست عمل دخل حاصل کر لیا۔

جزیرہ نما عرب کا جنوب مشرقی ساحل پہلے پرتگیزی اور بعد میں برطانوی تسلط میں رہا۔ بیسویں صدی کے آغاز پر ترکی کی سلطنت عثمانیہ تیزی سے روبہ زوال تھی۔ اس صدی کے پہلے عشرے میں اسے بلقان کے علاقوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اسی اثنا میں پہلی جنگ عظیم شروع ہو گئی۔ ترکی نے جرمنی کا ساتھ دیا اور نتیجتاً شکست کھائی۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یورپی استعماری طاقتوں نے سلطنت عثمانیہ کو اس کے بیشتر مقبوضات سے محروم کر دیا اور بالآخر سلطنت کا خاتمہ ہو گیا۔

خواجہ محمود جاوید

ٹیپو سلطان کی ریاست

میسور کے تاریخی مقامات میں ایک میسور پیلس ہے۔ دراصل اس کا تعلق اسی بادشاہت سے ہے جو 1565 میں قائم ہوئی تھی اور آزادی کے بعد تک قائم رہی۔ ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد بھی انگریزوں نے اس فیملی کی بادشاہت کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا، تمام تر اختیارات انگریزوں کے قبضے میں تھے لیکن برائے نام اس فیملی کی بادشاہت برقرار تھی۔ ان کا قلعہ میسور پیلس کہلاتا ہے۔ برائے نام یہ بادشاہت آج بھی برقرار ہے اور یہ جگہ اسی فیملی کی ملکیت ہے۔ سال میں دو ماہ کیلئے یہاں انٹرنیشنل تجارتی میلہ لگتا ہے جہاں دنیا بھر کے تاجر اور زائرین آتے ہیں۔ لوگ بتاتے ہیں کہ ان دنوں میں میسور میں ازدحام ہوتا ہے۔ پائوں رکھنے کی کوئی جگہ نہیں ہوتی ہے۔

میلے میں دنیا کی تمام نایاب چیزیں دستیاب ہوتی ہیں، بہت سے ممالک کی نایاب چیزیں اس علاقے میں بنائی بھی جاتی ہیں۔ اس موقع پر دسہرہ کے دس دنوں میں قلعہ کے مالک اور مہاراجہ کی آمد بھی ہوتی ہے، ان کا دربار لگتا ہے۔ لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے، عام دنوں میں ودیار فیملی کے یہ بادشان لندن میں ہوتے ہیں۔ حکومت نے کئی مرتبہ اس محل کو اپنے تصر ف میں لینے کی کوشش کی لیکن ہائی کورٹ سے کامیابی نہیں مل سکی۔ یہ میسور کے خوبصورت اور تاریخی مقامات میں سے ایک ہے، چمنڈی پہاڑ کے دامن میں واقع ہے۔ قلعہ میں کئی ایک خوبصورت کمرے اور ہال بنے ہوئے ہیں، راجائوں کے مجسمے نصب ہیں، چاندنی اور سونے کے بنے دروازے ، کرسی اور دیگر چیزوں کو برقرار رکھا گیا ہے۔ چالیس روپے کا یہاں کا ٹکٹ ہے، داخل اور خارج کا راستہ الگ الگ ہے۔ 

میسور پیلس کی ایک اہم خصوصیت اس کا لائٹنگ سسٹم ہے۔ دسہرہ کے دس دنوں میں رات کے اوقات میں یہ لائٹ جلتی ہے جبکہ عام دنوں میں بھی شام کو ساڑھے سات بجے آدھے گھنٹے کیلئے لائٹ جلائی جاتی ہے اور زائرین شوق کے ساتھ اس منظر کا نظارہ کرتے ہیں۔ دنیا کے دیگر شہروں و خطوں کے مقابلے میں میسور کی تصویر مختلف نظر آتی ہے، سر سبزو شادابی آج بھی وہاں برقرار ہے۔ میسور کے تاریخی مقامات میں آدم مسجد بھی شامل ہے جس کی تعمیر سلطان حیدر علی کے زمانے میں ہوئی تھی۔ یہ لکڑی کی مسجد ہے لیکن اس کا رخ انتہائی خوبصورت اور دیدہ زیب ہے ۔ میسور شہر سے تقریباً 15 کلومیٹر کی دوری پر سرنگا پٹنم واقع ہے، حیدر علی اور ٹیپو سلطان کے زمانے میں یہی شہر دارالخلافہ تھا۔ دو ندی کے کنارے پر یہ موجود ہے، جائے وقوع انتہائی خوبصورت اور پرکشش ہے۔ 

بنگلور میسور ہائی وے سے چند کلو میٹر اندر جا کر ٹیپو سلطان کا مقبرہ ہے۔ ایک وسیع احاطہ ہے جس کا نام گنبذ ہے، چاروں طرف گارڈن بنے ہوئے ہیں، بیچ میں ایک گنبد نما مکان ہے جہاں حضرت ٹیپو سلطان، ان کے والد حیدر علی اور والدہ محترمہ کی قبر ہے۔ ٹیپو سلطان کی قبر پر شیر کی کھال رکھی ہوئی ہے۔ گنبد کے خادموں کے مطابق حضرت اپنے زمانے میں اسی پر بیٹھتے تھے، اس لئے اسے ان کی قبر پر اوڑھایا گیا ہے۔ مقبرہ کے تین دروازے ہیں، یہ تینوں دروازے سونے کے تھے جسے انگریزوں نے غصب کر لیا، مقبرہ کے چاروں طرف کچھ چھتیس کھمبے بھی بنے ہوئے ہیں۔ اس کی احاطے میں چاروں جانب خوبصورت عمارت ہے جن کی حیثیت دورِ بادشاہت میں مسافر خانے کی تھی۔

اس احاطے میں ایک مسجد بھی بنی ہوئی ہے جس کا نام مسجد اقصی ہے۔ ٹیپو سلطان نے ہی اس مسجد کی تعمیر کرائی تھی۔ مقبرہ کے بالکل سامنے سرخ رنگ کا وہ جھنڈا لہرایا گیا ہے جو آپ کے زمانے میں تھا، لا الہ اللہ محمد الرسول اللہ لکھا ہوا ہے اور ایک علامت بھی بنی ہوئی ہے۔ گنبد کے بالکل سامنے ہے اور یوں لگتا ہے کہ آج بھی وہاں اسی جھنڈے کی حکمرانی ہے۔ مزار پر جانے کیلئے کوئی ٹکٹ نہیں ہے، ہزاروں کی تعداد میں ملک و بیرون ملک کے زائرین وہاں آتے ہیں۔ اپنے وقت کا ایک بہادر حکمران منوں مٹی تلے دفن ہے جسے لوگ خراج تحسین پیش کرنے جوق در جوق آتے ہیں اور آتے رہیں گے۔ یہ سلام عقیدت ہے آزادی کیلئے لڑنے والوں کیلئے جو عزت کی موت کو ذلت کی زندگی پر ترجیح دیتے ہیں۔  

شمس تبریز

صحرا کا شیر : عمر مختار

اگر کسی سے بھی پوچھا جائے کہ لیبیا کی تاریخ کی عظیم ترین شخصیت کون ہے تو ایک ہی جواب ملے گا، عمر مختار۔ عمر مختار کو صحرا کا شیر (Lion of Desert) بھی کہا جاتا ہے۔ انہوں نے اٹلی کے خلاف لیبیا کی آزادی کی جنگ لڑی۔ اٹلی نے 1911ء میں لیبیا پر قبضہ کیا جب لیبیا سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا۔ انہوں نے 20 برس تک اپنے ملک کو اٹلی کے غاصبانہ قبضے سے آزاد کرانے کیلئے پیہم جدوجہد کی۔ تاریخ نے ثابت کیا کہ عمر مختار جیسے حریت پسند کم ہی پیدا ہوتے ہیں۔ عمر مختار 20 اگست 1858ء کو زویات ضفور میں ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا پورا نام عمرالمختار محمد بن فرحات المنفی تھا۔ ابھی وہ کم سن تھے کہ ان کے والد کا انتقال ہو گیا اور ان کی ابتدائی زندگی غربت و افلاس میں گزری۔ شارف الغریانی نے عمرمختار کو اپنا بیٹا بنا لیا۔ شریف الغریانی، مذہبی اور سیاسی رہنما حسین غریانی کے بھتیجے تھے ۔ 

عمر مختار نے ابتدائی تعلیم مسجد میں حاصل کی۔ اس کے بعد انہوں نے آٹھ سال تک جغبوب کی سنوسیہ یونیورسٹی میں تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔ وہ قرآن پاک کے عالم بن گئے اور امام بھی۔ انہیں اپنے معاشرتی ڈھانچے کے بارے میں بھی بہت آگاہی حاصل ہوئی۔ انہیں قبائل کے اندرونی تنازعات نمٹانے کیلئے چنا گیا۔ عمر مختار جغبوب میں سنوسیہ تحریک کے ساتھ وابستہ ہو گئے۔ اکتوبر 1911ء میں اٹلی اور ترکی کی جنگ کے دوران اٹلی کی بحریہ لیبیا کے ساحلوں تک پہنچ گئی۔ اس وقت یہ علاقہ ترکی کی سلطنت عثمانیہ کے زیرنگیں تھا۔ اٹلی کے امیر البحر لیوگی فراویلی نے ترکی کی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ یہ علاقہ اٹلی کے حوالے کر دے یا پھر طرابلس اور بن غازی فوری تباہی کیلئے تیار ہو جائیں۔ 

ترکوں اور ان کے اتحادیوں (لیبیا کے شہری) نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ اس پر اٹلی نے ان شہروں پر تین دن تک بمباری کی اور پھر اعلان کیا کہ طرابلس کے لوگ اٹلی کے ساتھ ہیں۔ اس کے بعد اٹلی کی فوجوں اور لیبیا کی جماعتوں کے مابین مسلح لڑائیاں شروع ہو گئیں۔ عمر مختار قرآن پاک کے عالم تھے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ صحرائی جنگ کے رموز اور اس علاقے کی جغرافیائی حیثیت سے بھی آگاہ تھے۔ صحرائی جنگ کے حوالے سے جو مہارت انہیں حاصل تھی‘ اٹلی کی فوج اس کے برابر نہ آ سکی۔ عمر مختار نے بار بار اپنے چھوٹے گروپوں کے ذریعے کامیاب حملے کیے۔ ان کے جانثاروں نے بڑی مہارت سے حریفوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا اور فوجیوں پر حملے کیے۔ انہوں نے سپلائی اور ترسیل کی لائنیں کاٹ دیں۔ 

گوریلا جنگ کے ان حربوں نے اٹلی کی شاہی فوج کو ششدر کر دیا۔ عمر مختار نے بہت جلد اپنے حربوں کو تبدیل کیا، انہیں مصر سے امداد ملتی رہی۔ مارچ 1927ء میں جغبوب کے قبضے اور گورنر اٹیسیوتیروزی کی سخت گیر حکومت کے باوجود عمر مختار نے اٹلی فوجی دستوں کو رحیبہ کے مقام پر حیران کر دیا۔ 1927ء اور 1928ء کے درمیان عمر مختار نے سنوسیہ فوجوں کی تنظیم نو کی جو مسلسل اٹلی کا نشانہ بن رہی تھیں۔ جنرل تبروزی نے بھی عمرمختار کی غیر معمولی صلاحیتوں اور عزم و ہمت کو تسلیم کیا۔ اس نے یہ مانا تھاکہ عمر مختار کی قوت ارادی غیر معمولی اور وہ حوصلے کی چٹان ہیں۔ ایک طرف اٹلی کی فضائیہ عمر مختار اور ان کے ساتھیوں کیلئے مسلسل خطرہ بنی ہوئی تھی تو دوسری طرف مخالف فوجوں کو مقامی مخبروں کا تعاون بھی حاصل تھا۔ 

باایں ہمہ، عمر مختار نے اپنی جدوجہد جاری رکھی۔ 11 ستمبر 1931ء کو عمر مختار پر چھپ کر حملہ کیا گیا اور وہ اسلنطہ کے مقام پر زخمی ہو گئے اور اٹلی کی فوج نے انہیں گرفتار کر لیا۔ اس کے ساتھ ہی عمر مختار کی 20 سالہ جدوجہد کا خاتمہ ہو گیا۔ اس وقت اٹلی میں فسطائی رہنما مسولینی کی حکومت تھی ۔ جو کچھ عمر مختار اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ ہو رہا تھا وہ سب مسولینی کے احکامات پر ہو رہا تھا۔ عمر مختار پر اٹلی کی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا اور انہیں پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ اٹلی کو یہ توقع تھی کہ عمر مختار کی پھانسی کے ساتھ ہی لیبیا کی مزاحمت دم توڑ جائے گی۔ اس وقت عمر مختار مزاحمت کی علامت بن کر سامنے آئے تھے۔ 

انہیں کو 16ستمبر 1931ء کو 20 ہزار لوگوں کے سامنے پھانسی دے دی گئی۔ یہ لوگ اس وقت جنگی قیدیوں کی حیثیت سے رہ رہے تھے۔ عمر مختار کی پھانسی نے مزاحمت کی تحریک ختم نہیں کی بلکہ اس کی شدت میں اضافہ ہوتا گیا۔ 1951ء میں آخرکار لیبیا کو آزادی مل گئی۔ اس طرح عمر مختار نے 1931ء میں اپنی جان کا جو نذرانہ پیش کیا تھا اس کا صلہ لیبیا کے باشندوں کو 20 برس بعد ملا۔ عمر مختار لیبیا کی آزادی کے حوالے سے مزاحمت کا استعارہ تھے، ان کا نام تاریخ سے کبھی حذف نہیں کیا جا سکتا۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ عمر مختار کے نام سے ہالی وڈ میں فلم بھی بنائی گئی جو 1980ء میں ریلیز ہوئی۔ اس فلم کی تیاری میں لیبیا کے سابق صدر معمر قذافی نے بھی حصہ ڈالا۔ 

سن 2009ء میں صدر قذافی جب روم گئے تو انہوں نے اپنی قمیص پر عمر مختار کی وہ تصویر لگا رکھی تھی جب وہ اٹلی کی فوج کی قید میں تھے۔ فلم ’’عمر مختار‘‘ میں مرکزی کردار اداکار انتھونی کوئن نے ادا کیا تھا۔ انہوں نے اس کردار میں جتنی جان ڈالی اسے دیکھ کر لگتا تھا کہ ’’صحرائی شیر‘‘ دوبارہ زندہ ہو گیا ہے۔ انتھونی کوئن نے پھانسی کے مناظر کی فلم بندی میں اداکاری کی رفعتوں کو چھو لیا۔ عمر مختار کی طرح انتھونی کوئن نے بھی ان کا کردار ادا کر کے لافانی شہرت حاصل کی۔ فرانز فینن نے بالکل سچ کہا تھا کہ آزادی کی تحریکیں صرف اسی صورت میں کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہیں جب قیادت ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں ہو جسے عزم کا کوہ گراں کہا جائے۔ بلاشبہ عمرمختار بھی ایسے ہی رہنما تھے۔  

عبدالحفیظ ظفر

فتح قسطنطنیہ : تاریخی اسلامی کا ایک درخشاں باب

فتح قسطنطنیہ (بلاد روم/ استنبول) تاریخی اسلامی کا ایک درخشاں باب ہے۔ یہ شہر 29 مئی 1453 عیسوی میں 21 سالہ عثمانی سلطان محمد فاتح نے 54 روزہ محاصرے کے بعد فتح کیا تو پورے عالم اسلام میں فرحت و انبساط کی ایک لہر دوڑ گئی، عثمانیوں کے عزت و احترم میں زبردست اضافہ ہوا اور سلطان فاتح ایک بہادر اور جہاندیدہ رہنما کے طور پر سامنے آئے۔ اس جوش و خروش کی بنیادی وجہ شہر سے متعلق سرکارِ دو عالم ﷺ کی متعدد احادیث اور بشارتیں تھیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میری امت کا پہلا لشکر جو بلاد روم پر حملہ کرے گا، بخشا بخشایا ہے۔ فرمایا کہ میری امت یہ شہر ضرور فتح کرے گی۔ فرمایا مجھے خواب میں دیکھایا گیا کہ میری امت کے کچھ لوگ یہ شہر فتح کر رہے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی اجمعین سے لیکر عثمانی ترکوں تک مسلمان ایک ہزار سال تک اس شہر کو فتح کرنے کی مسلسل کوشش کرتے رہے، یہاں تک کہ سلطان محمد دوئم کی قسمت کا ستارا جاگا اور فاتح کا لقب ہمیشہ کے لئے انکے نام کے ساتھ منسوب ہو گیا۔ اس شہر پر سب سے پہلا حملہ 669 عیسوی میں امیر المومنین سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ و تعالی عنہ کے دور میں ہوا۔ آپ نے ایک لشکر جری تیار کر کے شہر کی طرف روانہ کیا جس میں سیدنا حسین (رض)، ابو ایوب انصاری (رض) اور یزید ابن معاویہ سمیت ہزاروں اصحاب رسول ﷺ اور تابعین نے شرکت کی۔ محاصرہ چھ ماہ تک جاری رہا لیکن شہر کی مظبوط فصیل صحابہ کرام اور شہر کے درمیان حائل رہی۔

ناکامی کے باوجود مختلف ادوار میں کوششیں جاری رہیں۔ 1402 میں ترک سلطان بایزید یلدرم نے شہر کا محاصرہ کیا اور قریب تھا کہ وہ شہر میں داخل ہو جاتے لیکن مشرقی سرحد پر تیمور لنگ کے حملوں کی وجہ سے انہیں محاصرہ اٹھا کر واپس آنا پڑا۔ بایزید یلدرم کے پر پوتے اور سلطان مراد اول کے بیٹے سلطان محمد دوئم 19 برس کی کم عمری میں تخت نشین ہوئے تو جہاں انہیں اندرونی خلفشار کا سامنا تھا وہی بازنطینی حکمران بھی انکے گرد سازشوں کے جال بن رہے تھے۔ ان کٹھن اور نامساعد حالات میں انہوں نے فتح قسطنطنیہ کو اپنا مقصد حیات بنا لیا اور اپنی حکومت کے پہلے دو سال فتح کی منصوبہ بندی میں بسر کر دئے۔

غیر تو غیر، انکے اپنے مشیر اور اعلی حکومتی عہدیدار بھی ان ارادوں اور منصوبوں کا مذاق اڑایا کرتے تھے، لیکن سلطان جوان تھے اور جوش اپنی انتہا پر تھا۔ انہوں نے باضابطہ محاصرے سے قبل آبنائے باسفورس کے دوسری طرف ایک حصار بنا کر بازنطین کی تجارت روک دی اور توپوں کا ایک بڑا کارخانہ لگا کر ماہر کاریگر اوربن سے اس زمانے کے سب سے طاقتور توپ تیار کروائیں۔ منصوبے کے مطابق 29 اپریل 1453 کو شہر کا محاصر کیا گیا لیکن ابنائے باسفورس سے شہر قسطنطنیہ کے اندر جانے والی خلیج “شاخ زریں” کے دہانے پر بازنطینی افواج نے ایک زنجیر لگا دی، جس کی وجہ سے عثمانی بحری جہاز شہر کی فصیل کے کمزور حصے کے قریب نہیں جا سکتی تھیں۔

یوں شہر پر تمام ابتدائی حملے بری طرح ناکام ثابت ہوئے اور ترک افواج کو زبردست جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ دوسری جانب جیسے جیسے محاصرا طویل ہوتا جارہا تھا، شہر والوں کے لئے یورپ سے امداد کے امکانات بھی بڑھتے جا رہے تھے۔ کہتے ہیں کہ مایوسی کی اس صورتحال میں سلطان اور انکے شیخ کو خواب میں بشارتوں کا سلسلہ شروع ہوا اور فصیل کے قریب جلیل القدر صحابی حضرت ابو ایوب انصاری (رض) کی قبر مبارک ظاہر ہو گئی۔ ابو ایوب انصاری ہزار سال قبل شہر کے پہلے محاصرے کے دوران شہید ہو گئے تھے۔ ان واقعات نے سلطان کے جذبوں کو دوبارہ جوان کر دیا۔

اس نے جہاں شہر کے دوسری جانب غلطہ کےعلاقے سے بحری جہازوں کو خشکی پر سے گزار کر انہیں شاخ زریں میں اتارنے کا کارنامہ انجام دیا تو وہیں زیرزمین سرنگ بنا کر دیوار کے قریب بارودی مواد نصب کروا دئے۔ یوں دیوار گر گئی اور ساتھ ہی بازنطینی سلطنت بھی۔ چشم تصور میں لائیں کہ ترک جانثار، آغا، پاشا، علماء اور سب سے آگے سلطان محمد فاتح شہر میں داخل ہو رہے ہیں۔ واللہ وہ لمحہ کتنا خوبصورت ہو گا۔ آپ صلی اللہ و علیہ وسلم نظارہ کناں ہیں، یہ سوچ کر ترکوں کی جان نکلی جاتی ہو گی۔ سلطان نے شہر میں داخل ہو کر آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کر دیا، جسکی وجہ جہاں شاہ قسطنطین کی طرف معاہدے کی پیشکش کا انکار تھا وہیں دو صدیاں قبل اندلس میں درجنوں مساجد کو معاہدوں کے باوجود کلیسا میں تبدیل کرنے کے اقدامات بھی تھے۔

ارتھوڈکس فرقے کے کلیسا کو برقرار رکھا گیا اور سرکاری خزانے سے دوران محاصرہ عیسائیوں اور یہودیوں کے تباہ ہونے والے گھروں اور عبادت گاہوں کی تعمیر نو بھی کی گئی۔ سلطان محمد فاتح نے اپنے تیس سالہ دور حکومت میں فتوحات کا سلسلہ جاری رکھا اور آگے بڑھتے ہوئے سربیہ، بوسنیہ اور یونان کے مختلف علاقوں کو سلطنت عثمانیہ میں شامل کر لیا۔ وہ ترک، عربی، فارسی، عبرانی، یونانی اور لاطینی پر زبانوں پر مکمل عبور رکھتے اور کئی زبانوں میں شاعری کرتے۔ انہیں ریاضی، فلکیات اور فلسفے کے علم میں بھی گہری دلچسپی تھی۔

یورپی مورخین فتح قسطنطنیہ کو” قرون وسطی ” کے خاتمے اور جدید تاریخ کا نقطہ آغاز قرار دیتے ہیں۔ بدقسمتی سے اس فتح کے ساتھ ہی مسلمان دنیا جمود کا شکار ہو گئی۔ دوسری طرف یورپ نے اس بدترین شکست سے نصیحت پکڑی اور ان کی آئندہ پانچ صدیاں نشاۃ ثانیہ کے عنوان سے ماخوذ ہو گئیں۔
اقبال نے اس فتح کو کچھ یوں یاد کیا

خطۂ قسطنطنیہ یعنی قیصر کا دیار
مہدئ امت کی سطوت کا نشانِ پائیدار

صورتِ خاکِ حرم یہ سر زمیں بھی پاک ہے
آستان مسند آرائے شہِ لولاک ہے

نکہتِ گل کی طرح پاکیزہ ہے اس کی ہوا
تربتِ ایوب انصاری سے آتی ہے صدا

اے مسلماں! ملتِ اسلام کا دل ہے یہ شہر
سینکڑوں صدیوں کی کشت و خوں کا حاصل ہے یہ شہر

وہ زمیں ہے تو مگر اے خواب گاہِ مصطفی
دید ہے کعبے کو تیری حجِ اکبر سے سوا

خاتمِ ہستی میں تو تاباں ہے مانندِ نگیں
اپنی عظمت کی ولادت گاہ تھی تیری زمیں

تجھ میں راحت اس شہنشاہِ معظم کو ملی
جس کے دامن میں اماں اقوامِ عالم کو ملی

نام لیوا جس کے شاہنشاہِ عالم کے ہوئے
جانشیں قیصر کے ، وارث مسندِ جم کے ہوئے

کاشف نصیر

محمود غزنوی : میں بت شکن ہوں بت فروش نہیں

اب سے 900 برس پیشتر افغانی اور ترکستانی قومیں ہند میں اس طرح چلی آ رہی تھیں جس طرح کسی زمانے میں آرین یا یونانی یا ستھین آئے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اہل عرب کو اپنے شمال اور شمال مشرق کے ملکوں کی فتح کے لیے نکلے ہوئے ساڑھے تین سو برس ہو چکے تھے۔ ترکستان، فارس اور افغانستان کے لوگ مسلمان ہو گئے تھے۔ کئی عرب قبیلے ان ملکوں میں آباد ہو چکے تھے۔ ان لوگوں کے دلوں میں بھی وہی جوش اور ولولہ بھرا ہوا تھا جو عرب میں موجود تھا۔ اس وقت افغانستان کا بڑا شہر غزنی تھا۔ یہاں کا بادشاہ محمود نامی ایک ترک تھا۔ اس کا باپ پنجاب کے برہمن راجہ جے پال سے کئی دفعہ لڑا، اور اس کو شکست دے کر غزنی اور سندھ کے درمیان کے علاقے پر قابض ہو گیا تھا۔ 

ہند اس وقت دنیا کے زرخیز اور زر دار ملکوں میں شمار ہوتا تھا۔ اس کی تجارت کا سلسلہ اپنے شمال مغرب کے ملکوں سے ملتا ہوا ممالک فرنگ تک پہنچتا تھا۔قیمتی سامانِ تجارت اونٹوں پر لاد کر افغانستان کے دروں کی راہ ہند سے دور دراز ملکوں میں جاتا تھا۔ محمود ابھی لڑکا ہی تھا کہ مندروں کی باتیں سن کر وہ کہتا تھا کہ میں بڑا ہو کر بادشاہ بنوں گا اور ہندو راجائوں سے لڑوں گا۔ تیس برس کی عمر میں محمود غزنوی تخت شاہی پر جلوہ گر ہوا۔ جو کچھ یہ کہا کرتا تھا وہ سب کر کے دکھا دیا۔ وہ اپنی فوج لے کر ہند پر چڑھ آیا۔ یہاں جے پال جو اس کے باپ سے لڑ چکا تھا اور خراج ادا کرنے سے انکار کرتا تھا۔ محمودغزنوی نے جے پال کو شکست دے دی ۔ جے پال نے شرم کے مارے زمام سلطنت اپنے بیٹے انندپال کے ہاتھ میں دی اور آپ جیتے جی چتا میں جل کر مر گیا۔

انندپال نے اجین، گوالیار، قنوج، دہلی اور اجمیر کے راجائوں کو پیغام دیا کہ محمودغزنوی سال آئندہ میں ضرور حملہ کرے گا آپ میرے ہمراہ ہو کر اس کا مقابلہ کریں۔ انہوں نے منظور کیا اور پنجاب میں داخل ہوئے، لیکن شمالی سرد ملکوں کے افغان ہند کے گرم میدانوں کے راجپوتوں سے زیادہ طاقتور تھے۔ گھمسان کی لڑائی ہوئی۔ راجپوت پسپا ہوئے۔ محمود غزنوی نے آگے بڑھ کر نگر کوٹ کو فتح کر لیا۔ مندروں کو نیست و نابود کیا۔ غزنی پہنچ کر انہوں نے ایک دعوت عام کا سامان کیا۔ کل افغانوں کو بلوایا۔ تین دن تک ان کی ضیافت کی۔ سرداروں اور امرا کا تو کہنا ہی کیا ہے۔ ان کو تو نہایت قیمتی تحفے دیئے اور غریب سے غریب افغان بھی کوئی ایسا نہ تھا کہ دعوت سے خالی ہاتھ گیا ہو اور ایک معقول انعام نہ لے گیا ہو۔ 

محمود غزنوی افغانوں کو ہند پر چڑھا لاتا تھا اور ان تمام راجپوت راجائوں سے اپنا بدلہ لیتا تھا جو انندپال کے ساتھ مل کر اس کے مقابلے میں آئے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کی ہمت کا دریا طغیانی پر تھا۔ ہر بار جو قدم تھا، آگے ہی آگے پڑتا تھا۔ جہاں کہیں کوئی بڑا مندر نظر آیا وہیں جا کر حملہ کر دیا، مندر ڈھائے، بت توڑے۔ جہاں اس نے ہند پر حملہ کرنے کے لیے فوج کو جمع ہونے کا حکم دیا وہیں یہ لوگ آندھی کی طرح اٹھے چلے آئے، پھر محمود غزنوی کے ہر حملے میں فوج کی افزدنی نہ ہوتی تو کیا ہوتا۔ محمود غزنوی 1024ء میں آخری بار ہند پر حملہ آور ہوا اور سومناتھ کے مندر پر پہنچا۔ یہ علاقہ گجرات میں ایک بہت پرانا بڑا مندر تھا ۔ سندھ کے ریگستان میں ساڑھے تین سو میل کا دور دراز سفر طے کر کے وہ اس مندر کے سامنے آن موجود ہوا اور ہندوئوں کی بڑی فوج کو شکست دی ۔

جب یہ مندر کے اندر داخل ہوا تو ڈرتے کانپتے پجاریوں نے التجا کی کہ اگر آپ ہمارے سومناتھ دیوتا کی مورت کو جوں کا توں چھوڑ دیں تو ہم اس کے عوض آپ کو بہت سا روپیہ دینے کو تیار ہیں لیکن انہوں نے کہا میں بت توڑنے آیا ہوں، بت بیچنے نہیں آیا۔ یہ کہہ کر بت پر اپنا آہنی گرز اس زور سے مارا کہ اس کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔ اس کے بعد وہ وہاں سے نکل گیا۔ ان کے دو دارالخلافے تھے، غزنی اور لاہور۔ محمودغزنوی بہادر سپاہی تھا وہ ظالم اور بے رحم ہرگز نہ تھا۔ جنگی قیدیوں کو قتل نہیں کرتا تھا، سلطنت افغانستان کا انتظام بڑی خوبی کے ساتھ چلایا، غزنی میں عالیشان عمارتیں بنا کر اس کی رونق بڑھائی۔ بہت سے شاعر اور باکمال دور دراز کے ملکوں سے آ کر غزنی میں آباد ہوئے۔  

ای-مارسڈن

سلطنت ِ ہسپانیہ : اسپین میں صدیوں پر محیط مسلم اقتدار کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو گیا

سلطنت ہسپانیہ یا سپینش ایمپائر تاریخ عالم کی بڑی سلطنتوں اور اولین عالمی ریاستوں میں سے ایک تھی۔ 15 ویں سے 19 ویں صدی تک دنیا کے وسیع علاقے اس کی نوآبادی رہے۔ اس سلطنت میں یورپ، امریکا، افریقہ، ایشیا اور اوقیانوسی علاقے اور نو آبادیات شامل رہیں۔ بہت سے سکالرز کا ماننا ہے کہ آئزابیلا اور شاہ فرڈیننڈ کی شادی سے قائم ہونے والا اتحاد سلطنت ہسپانیہ کی بنیاد بنا۔ یہ دونوں اپنے اپنے علاقوں کے حاکم تھے۔ انہوں نے مل کر مسلمانوں کو غرناطہ سے بے دخل کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ اسپین میں آخری مسلم امارت غرناطہ کے حکمران ابو عبداللہ نے تاج قشتالہ اور تاج اراغون کے حکمرانوں ملکہ آئزابیلا اور شاہ فرڈیننڈ کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اور اس طرح اسپین میں صدیوں پر محیط مسلم اقتدار کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو گیا۔ 

معاہدے کے تحت مسلمانوں کو مکمل مذہبی آزادی کی یقین دہانی کرائی گئی لیکن نئے حکمران زیادہ عرصے اپنے وعدے پر قائم نہ رہے اور یہودیوں اور مسلمانوں کو اسپین سے بے دخل کر دیا گیا۔ آئزابیلا اور شاہ فرڈیننڈ نے ایک متحدہ بادشاہت قائم کی۔ اس وقت ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے اہم تجارتی مراکز پر عثمانی ترکوں کا کنٹرول تھا۔ اس لیے وہ متبادل راستوں کی تلاش میں رہے۔ عہدِ دریافت یا ایج آف ڈسکوری میں ہسپانیہ نے جزائر کیریبین پر نو آبادیاں قائم کیں اور ہسپانوی فاتحین نے امریکا میں قائم اس وقت کی مقامی سلطنتوں مثلاً ایزٹک کا خاتمہ کر دیا۔ انہوں نے مقامی آبادی کا وسیع پیمانے پر قتل عام بھی کیا۔ یوں براعظم امریکا میں ان کا کنٹرول مضبوط ہوا۔ انہوں نے بحری مہمات جاری رکھیں۔ 

بعد ازاں ان کے نتیجے میں شمالی امریکا میں کینیڈا سے لے کر جنوبی امریکا میں ٹیرا ڈیل فیگو تک ایک وسیع ہسپانوی نو آبادی قائم ہوئی۔ دنیا کے گھر چکر لگانے کی ہسپانوی مہم جس کا آغاز سولہویں صدی کے اوائل میں ہوا اور چند ہی برس میں اس میں کامیابی حاصل کر لی گئی۔ یوں ہسپانیہ نے مغرب کی جانب سے ایشیا کا بحری راستہ تلاش کر لیا۔ اب ہسپانیہ کی نظریں مشرق بعید پر تھیں، جہاں بعد ازاں اس نے گوام، فلپائن اور ملحقہ جزائر پر نوآبادیاں قائم کیں۔ ہسپانوی عروج کے دوران سلطنت نیدرلینڈز، لکسمبرگ، بلجیم، اطالیہ کے بڑے حصے، جرمنی اور فرانس کے کچھ حصوں، افریقی، ایشیائی اور اوقیانوسی مقبوضات پر پھیلی ہوئی تھی اور براعظم امریکا بڑا حصہ بھی اس کے قبضے میں تھا۔ 

سترہویں صدی میں ہسپانیہ اپنے عہد کی عظیم سلطنت بن چکی تھی۔ 1808ء میں نپولین کی زیر قیادت فرانس کے ہسپانیہ پر قبضے کے باعث امریکی نو آبادیات عارضی طور پر ہسپانیہ سے کٹ گئیں اور 1810ء سے 1825ء کے دوران متعدد تحاریک آزادی کے نتیجے میں جنوبی و وسطی امریکہ میں متعدد نو آزاد ریاستیں وجود میں آئیں۔ ہسپانیہ کے بقیہ مقبوضات کیوبا، پورٹو ریکو، فلپائن اور ہسپانوی شرق الہند 19 ویں صدی کے آخر تک ہسپانیہ کے قبضے میں ہی رہے۔ جب ہسپانوی-امریکی جنگ کے نتیجے میں ان علاقوں کا بیشتر حصہ ریاستہائے متحدہ امریکا کے قبضے میں چلا گیا تو 1899ء میں ہسپانیہ نے بحر الکاہل کے بقیہ جزائر بھی جرمنی کو فروخت کر دیے۔ 

بیسویں صدی کے اوائل تک ہسپانیہ کے مقبوضات صرف افریقہ میں رہ گئے تھے جہاں ہسپانوی گنی، ہسپانوی صحرا اور ہسپانوی مراکش بدستور اس کی غلامی میں تھے۔ 1956ء میں ہسپانیہ مراکش سے دستبردار ہو گیا اور 1968ء میں استوائی گنی کو بھی آزادی دے دی گئی۔ 1976ء میں جب ہسپانوی صحرا سے دستبردار ہوئے تو مراکش اور ماریطانیہ نے اس نو آبادی پر قبضہ کر لیا اور بعد ازاں 1980ء میں یہ علاقہ مکمل طور پر مراکش کے قبضے میں چلا گیا۔ اقوام متحدہ کے تحت یہ علاقہ اب بھی ہسپانیہ کے زیر انتظام تسلیم کیا جاتا ہے۔ جزائر کناری اور شمالی افریقہ کے ساحلوں پر کیوتا اور ملیلا کے مختصر سے علاقے ہسپانیہ کے انتظامی علاقے ہیں۔ سو اس سلطنت کا اب خاتمہ ہو چکا۔

محمد اسلم