بیت المقدس، پانچ ہزار برس قدیم شہر

یروشلم دنیا کا وہ واحد شہر ہے جو بیک وقت تین بڑے مذاہب کا مقدس شہر مانا جاتا ہے۔ مسلمان اسے نہایت عزت اور تکریم کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ یہی قبل اول تھا اور پیغمبر اسلام ﷺ نے معراج پر جانے سے پہلے اسی شہر میں واقع مسجد اقصیٰ میں تمام نبیوں کی امامت فرمائی تھی۔ یہیں سے آپ ﷺ معراج پر تشریف لے گئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان اور مسیحی ایک ہزار سال تک اس شہر پر اپنا قبضہ حاصل کرنے کے لئے برسر پیکار رہے ہیں۔

یروشلم کے لفظی معنی: تاریخی روایات کے مطابق لفظ ”یروشلم‘‘ دو عبرانی الفاظ ” یرو ‘‘ اور ” شیلم ‘‘سے ملکر بنا ہے جس کے معنی ”امن کا ورثہ ‘‘ کے ہیں۔ یہودیوں کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسے جریح کا نام دیا جس میں بادشاہ شالم نے 2008 قبل مسیح میں ”شیلم ‘‘ کا اضافہ کر دیا۔ مسلمانوں نے اس شہر کا نام القدس یعنی پاکیزہ شہر رکھا جس نے بیت المقدس کے نام سے شہرت پائی ۔

یروشلم کی تاریخ: ماہرین آثار قدیمہ کہتے ہیں کہ 5000 قبل مسیح میں بھی یروشلم میں انسانی آبادی کے آثار ملے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ دنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ تاریخ کی کتب میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام کا ذکر ملتا ہے جنہوں نے بیت المقدس کی طرف ہجرت کی تھی۔ پھر حضرت یعقوب علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق مسجد بیت المقدس (مسجد اقصیٰ) کی بنیاد رکھی۔ 1000 قبل مسیح میں حضرت داؤد علیہ السلام نے شہر کو فتح کر کے اپنی حکومت کا دارلخلافہ بنا لیا۔ جبکہ 960 قبل مسیح میں حضرت داؤد علیہ السلام کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام نے ہیکل سلیمانی تعمیر کرایا۔ 589 قبل مسیح میں شاہ بابل ( قدیم عراق) بخت نصر نے بیت المقدس شہر کو مسمار کر کے یہودیوں کو ذلت آمیز طریقے سے بے دخل کر دیا۔ وہ ایک لاکھ یہودیوں کو غلام بنا کر اپنے ساتھ عراق لے گیا ۔ طویل عرصے تک یرو شلم ویرانی کی تصویر بنا رہا ۔

ایک سو سال بعد بیت المقدس ایک پر رونق شہر بن چکا تھا۔ 539 قبل مسیح میں بخت نصر کے بعد فارس کے شہنشاہ روش کبیر (سائرس اعظم) نے بابل پر تابڑ توڑ حملوں کے بعد بابل اور یروشلم پر قبضہ کر لیا۔ اس نے یہودیوں کو واپس آنے کی اجازت دے دی۔ ہیرود اعظم کے زمانے میں یہودیوں نے بیت المقدس اور ہیکل سلیمانی دوبارہ تعمیر کر لیا۔ لیکن 70 عیسوی میں رومی جنرل ٹا ئٹس نے ہیکل سلیمانی کو مسمار اور شہر یروشلم کو تباہ و برباد کر دیا۔ چوتھی صدی عیسوی میں رومیوں نے مسیحیت قبول کر لی اور بیت المقدس میں گرجا گھر تعمیر کرا نا شروع کر دئیے۔ جب نبی کریم ﷺ معراج پر تشریف لے گئے تو 2 ہجری بمطابق 624 عیسوی تک بیت المقدس پر مسلمانوں ہی کا قبضہ تھا۔ حکم الہٰی سے کعبہ (مکہ) کو قبلہ قرار دیا گیا۔ 639 عیسوی میں عہد فاروقی میں عیسائیوں سے ایک معاہدے کے تحت بیت المقدس پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا۔ 691 عیسوی میں اموی حکمران نے قبۃ الصخرا (ڈوم آف دا راک ) تعمیر کرایا۔ 1099 عیسوی میں پہلی صلیبی جنگ میں صلیبیوں نے بیت المقدس پرقبضہ کر لیا جس میں 70 ہزار کے لگ بھگ مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا ۔

سنہ 1187 میں صلاح الدین ایوبی نے صلیبیوں کو شکست دے کر شہر سے نکال دیا۔ 1229 میں فریڈرک دوم نے دوبارہ مسلمانوں سے یرو شلم حاصل کر لیا۔ لیکن تھوڑے ہی عرصے بعد 1244 عیسوی میں مسلمان دوبارہ یروشلم کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ۔ 1517عیسوی میں سلطان سلیم اول نے یروشلم کو عثمانی سلطنت کا حصہ بنا ڈالا۔ مسیحی اپنی شکست کو بھول نہ سکے تھے لہٰذا 1917 میں انگریز جنرل ایلن بی عثمانیوں کو شکست دینے میں کامیاب ہو گیا۔ جس کے بعد انگریز فوجوں نے شہر کا قبضہ حاصل کر لیا۔ تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ باب الخلیل کے راستے شہر میں داخل ہوتے وقت یروشلم کے تقدس کا احترام کرتے ہوئے وہ پیدل شہر میں داخل ہوا۔1947 ء میں اقوام متحدہ نے یروشلم اور فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ، مشرقی حصہ فلسطینیوں اور مغربی حصہ یہودیوں کے حوالے کر دیا گیا۔ پھر دو عشروں تک یروشلم کا مشرقی حصہ اردن کے اقتدار میں رہا لیکن 1967 ء کی جنگ میں اسرائیل نے اس پر قبضہ کر لیا۔ بین الاقوامی برادری نے آج تک یہ قبضہ جائز تسلیم نہیں کیا۔ اس مقدس شہر یروشلم نے بھی کیا قسمت پائی ہے۔ یہ بار بار تخت و تاراج ہوا، آبادیاں بار بار زبردستی جلا وطن ہوتی رہیں، اس کی گلیاں ان گنت مرتبہ میدان جنگ بنیں اور خون کے ندیوں کا منظر پیش کرتی رہیں ۔

خاور نیازی

بشکریہ دنیا نیوز

چی گویرا : امریکہ کو ناکوں چنے چبوانے والے گوریلا جنگجو

’موت آنے تک جاری رہنے والی جدوجہد کی کوئی حد نہیں ہے۔ دنیا کے کسی بھی گوشے میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے ہم اس سے لاتعلق نہیں رہ سکتے۔ سامراج کے خلاف کسی ایک ملک کی فتح ہماری فتح اور کسی ایک ملک کی شکست ہماری شکست ہے۔’ یہ بات چی گویرا نے موت سے دو برس قبل الجزائر میں ایفرو ایشین سالیڈیرٹی سمینار میں اپنا آخری بین الاقوامی خطاب کرتے ہوئے کہی تھی۔ چی گویرا ارجنٹینا میں پیدا ہوئے اور وہ کیوبا کے انقلابی رہنما تھے جو بائیں بازو کے حامیوں کے ہیرو بن گئے۔ البرٹو کوردا کی جانب سے لی گئی ان کی ایک تصویر 20 ویں صدی کی ایک معروف علامت بنی۔ ارنسٹو گویرا ڈی لا سرنا جو چی گویرا کے نام سے مقبول ہوئے، 14 جون سنہ 1928 کو ارجنٹینا کے علاقے روساریو کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے بیونس آئیرز یونیوسٹی سے طب کی تعلیم حاصل کی۔ اس عرصے میں انھیں جنوبی اور وسطی امریکہ میں بہت زیادہ سفر کرنے کا موقع ملا۔

انھوں نے بڑے پیمانے پر پھیلی غربت اور ظلم و جبر کا مشاہدہ کیا اور مارکسزم میں دلچسپی نے انھیں اس بات پر قائل کیا کہ جنوبی اور وسطی امریکہ کے مسائل کا واحد حل مسلح انقلاب ہے۔ وسعت اللہ خان سنہ 2007 میں بی بی سی اردو کے لیے لکھی اپنی تحریر میں چی گویرا کو کچھ اس طرح یاد کرتے ہیں: ‘چی گویرا نے اپنی مختصر سی زندگی میں کیا نہیں کیا تھا۔ رگبی اور شطرنج کا کھلاڑی، دمے کا مریض، ڈاکٹر، فوٹوگرافر، موٹر بائیک رائیڈر، شاعر، گوریلا کمانڈر، باپ، شوہر، ڈائری نویس، ادیب اور انقلابی۔۔۔‘ ‘وہ آدمی کے بھیس میں چلتی پھرتی تکلیف تھا۔ ایسا عبداللہ جو کسی بھی شادی کو دیوانہ ہونے کے لیے بیگانا نہیں سمجھتا تھا۔ اس کے لیے پورا لاطینی امریکہ اور پھر پوری دنیا ایک ہی ملک تھا۔‘ سنہ 1954 میں وہ میکسیکو گئے اور آنے والے برس میں وہ کیوبا کے انقلابی رہنما فیدل کاسترو سے ملے۔

چی گویرا نے ’26 جولائی کی تحریک’ میں کاسترو کے ساتھ شمولیت اختیار کی اور کیوبا کے ڈکٹیٹر بتیستا کے خلاف گوریلا جنگ میں اہم کردار ادا کیا۔ کاسترو نے سنہ 1959 میں بتیستا کا اقتدار ختم کیا اور کیوبا میں اقتدار سنبھال لیا۔ سنہ 1959 سے 1961 کے دوران چی گویرا کیوبا کے نیشنل بینک کے صدر تھے اور پھر وزیر برائے صنعت رہے۔ اس عہدے پر انھوں نے کیوبا کے سفارتکار کی حیثیت سے دنیا بھر میں سفر کیا۔ ملک کے اندر انھوں نے ایسے منصوبے بنائے جن کے ذریعے زمینوں کی دوبارہ سے تقسیم کی جاتی اور انھوں نے صنعتوں کے کے لیے منصوبہ بندی کی۔ امریکہ کے سخت ناقد کی حیثیت سے انھوں نے کاسترو کی حکومت کو سوویت یونین سے اتحاد میں معاونت فراہم کی۔ امریکہ کی جانب سے تجارتی پابندیوں اور ناکام اصلاحات کے بعد کیوبا کی معیشت بدحال ہوئی۔

اس مشکل وقت کے دوران چی گویرا نے کیوبا کے دیگر رہنماؤں کے ساتھ لڑنا شروع کر دیا۔ بعدازاں انھوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ دنیا کے ترقی پذیر ممالک کے دیگر حصوں میں انقلاب پھیلانا چاہتے ہیں اور پھر سنہ 1965 میں کاسترو نے اعلان کیا کہ چی گویرا نے کیوبا چھوڑ دیا ہے۔ کتاب چی گویرا کی ڈائری میں ان کی جانب سے کاسترو کو لکھے گئے دو خطوط بھی ہیں جن میں سے ایک میں وہ لکھتے ہیں کہ: ’مجھے لگتا ہے کہ میں نے اپنے فرض کا وہ حصہ ادا کر دیا ہے جس نے مجھے کیوبا کی سرزمین اور انقلاب سے منسلک رکھا۔‘ ’سو میں تم سے، ساتھیوں سے اور تمھارے عوام سے جو میرے ہو چکے ہیں، رخصت ہوتا ہوں۔ کوئی قانونی بندھن مجھے اب کیوبا کے ساتھ نہیں باندھے ہے، جو بندھن ہیں وہ ایک اور نوعیت کے ہیں ایسے بندھن جنھیں اپنی مرضی سے توڑا نہیں جا سکتا۔‘

جاتے جاتے اپنے بچوں کے نام خط میں چی نے لکھا کہ: ’تمھارا باپ ایک ایسا آدمی تھا جس نے جو سوچا اُس پر عمل کیا۔ یقین رکھو وہ اپنے نظریات سے مکمل طور پر وفادار رہا۔ یاد رکھو اگر کوئی چیز اہم ہے تو انقلاب، اس کے مقابلے میں ہماری ذات، ہمارا وجود کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔‘ چی گویرا نے کئی ماہ براعظم افریقہ، خاص طور پر کانگو میں گزارے۔ انھوں نے گوریلا جنگ کے لیے باغی فوج کو تربیت دینے کی کوشش کی۔ لیکن ان کی کوششیں رائیگاں گئیں اور سنہ 1966 میں وہ خفیہ طور پر کیوبا لوٹ گئے۔ کیوبا سے انھوں نے بولیویا جانے کی ٹھانی تا کہ وہ رینی بارنتوس اورتونو کی حکومت کے خلاف باغی فوجوں کی قیادت کر سکیں۔ امریکی مدد سے بولیویئن فوج نے انھیں اور ان کے باقی ماندہ جنگجوؤں کو گرفتار کیا۔

نو اکتوبر سنہ 1967 کو بویلیا کے گاؤں لاہیگورا میں چی گویرا کو خفیہ طور پر سپرد خاک کیا گیا۔ سنہ 1997 میں ان کی باقیات کا پتا چلا جنھیں نکال کر کیوبا کو لوٹایا گیا۔ کتاب چی گویرا کی ڈائری میں ایک مضمون فیدل کاسترو کا بھی ہے جس میں وہ لکھتے ہیں: ’یہ ثابت ہو چکا ہے کہ چی لڑتے ہوئے مارا گیا۔ اس کی ایم ٹو رائفل کی نالی ایک گولے سے بالکل بے کار ہو گئی تھی۔ اس کے پستول میں گولیاں نہیں تھیں۔ اس بے بسی میں اسے زندہ گرفتار کر لیا گیا۔ ’اس کے ٹانگوں میں اتنے زخم تھے کہ وہ چل بھی نہیں سکتا تھا۔ اسی حالت میں اسے ہگوراز لے جایا گیا۔ فوجی افسروں نے اُسے قتل کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایک سکول میں اس فیصلے پر عمل درآمد کی تفصیلات سب کو معلوم ہیں۔‘

بشکریہ بی بی سی اردو

معرکۂ عین جالوت کا فاتح رکن الدین بیبرس جس سے منگول بھی ڈرتے تھے

آج ہم آپ کو ایک ایسے غلام کی کہانی سنائیں گے جو سلطانوں کی طرح مشہور ہوا اور جس نے اپنی بہادری سے نہ صرف حکومت حاصل کی بلکہ کئی ظالموں کو منطقی انجام تک پہنچایا فتوحات کی ایسی مثالیں قائم کیں کہ بڑے بڑے جنگجو اس کے نام سے تھر تھر کانپتے تھے، تاریخ منگولوں کے ظلم سے بھری پڑی ہے لیکن اس ”غلام ‘‘ نے منگولوں کی ایسی کمر توڑی کہ وہ دوبارہ سر نہ اٹھا سکے۔ یہ غلام ایک عظیم فاتح، دلیر جنگجو اور عالم اسلام کا ایسا ہیرو بنا جس کو تاریخ کبھی بھلا نہ پائے گی۔ جی ہاں ! ہم بات کر رہے ہیں سلطان رکن الدین بیبرس کی جو 19 جولائی 1223ء کو دشتِ قپچاق میں ایک خانہ بدوش قبیلے میں پیدا ہوئے، قپچاق ترک عہد وسطیٰ میں یورپ و ایشیا ء کے درمیانی علاقے میں آباد تھے بیبرس ہلاکو خان اور غیاث الدین بلبن کا ہم عصر تھا اور کہا جاتا ہے کہ بیبرس کو غلام بنا کر فروخت کیا گیا تھا پھر وہ اپنے زورِ بازو سے سلطانِ مصر و شام بنا۔

الملک الظاہر رکن الدین بیبرس کا اصل نام البند قداری، لقب ابولفتوح تھا لیکن بیبرس کے نام سے شہرت پائی ۔ بیبرس سیف الدین قطز کا جانشین اور مصری افواج کے ان کمانڈروں میں سے ایک تھا جس نے فرانس کے بادشاہ لوئس نہم کو ساتویں صلیبی جنگ میں شکست دی۔ رکن الدین بیبرس (620ھ-676ھ) کے 3 کارنامے تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ پہلا کارنامہ یہ تھا کہ بیبرس نے سلطان سیف الدین قطز کے ساتھ مل کر منگولوں کو معرکۂ عین جالوت میں عبرتناک شکست دی۔ یہ مشہور جنگ 25 رمضان 658ھ کو لڑی گئی، اس جنگ میں منگولوں کا وہ حال کیا کہ اسکے بعد وہ دوبارہ سر اٹھانے کے قابل نہ رہے اس طرح حجازِ مقدس اور مصر منگولوں کے ظلم سے ہمیشہ کیلئے محفوظ ہو گئے۔ عین جالوت (فلسطین میں) وہی جگہ ہے جہاں طالوت کے مختصر لشکر نے جالوت کے لشکرِ جرار کو شکست دی تھی۔

یہ سلطان رکن الدین بیبرس کا دوسرا شاندار کارنامہ نہیں تو اور کیا ہے کہ اس نے تقریبا ًپونے دو صدی تک چلی صلیبی جنگوں کا خاتمہ کیا اور صلیبیوں کو ایسی عبرتناک شکست دی کہ پھر وہ دوبارہ حملہ کرنے کے قابل نہ رہے۔ بیبرس کا تیسرا کارنامہ یہ تھا کہ 659ھ میں مصر میں رسمی سہی مگر خلافتِ عباسی دوبارہ قائم کی جبکہ مغلوں نے بغداد کو تہس نہس کر کے خلافتِ عباسی کا بالکل خاتمہ کر دیا تھا۔ بغداد کو تباہ کرنے کے بعد جب ہلاکو خان کی فوجیں شام کی طرف بڑھیں تو بیبرس اور ایک مملوک سردار سیف الدین قطز نے مل کر عین جالوت کے مقام پر ان کو فیصلہ کن شکست دی اور منگول افواج کو نکال باہر کیا۔ بیبرس کا یہ بہت بڑا کارنامہ ہے کہ اس نے مصر و شام کو منگولوں کی تباہ کاریوں سے بچایا۔ اس نے مصری سلطنت کی شمالی سرحد ایشیائے کوچک کے وسطی علاقوں تک پہنچا دی۔ بیبرس کا ایک اور بڑا کارنامہ شام کے ساحل پر قابض یورپی حکومتوں کا زور توڑنا تھا۔

یہ حکومتیں پہلی صلیبی جنگ کے زمانے سے شام کے ساحلی شہروں پر قابض تھیں۔ نور الدین زنگی اور صلاح الدین ایوبی نے اگرچہ اندرون ملک اور فلسطین سے صلیبیوں کو نکال دیا تھا لیکن ساحلی شہروں پر ان کا اقتدار عرصے تک قائم رہا۔ ان کو بحری راستے سے یورپ سے معاونت میسر رہتی تھی۔ بیبرس نے عین جالوت میں منگولوں کے ساتھ اتحاد کرنے کی کوشش کرنے پر 1268ء میں مسیحی سلطنت انطاکیہ کا خاتمہ کیا۔ انطاکیہ کی سلطنت کا خاتمہ 1271ء میں نویں صلیبی جنگ کا باعث بنا جس کی قیادت انگلستان کے شاہ ایڈورڈ نے کی مگر وہ بیبرس سے کوئی بھی علاقہ چھیننے میں ناکام رہا۔ بیبرس نے اپنی سلطنت کو جنوب میں سوڈان کی طرف بھی وسعت دی۔ اپنی ان فتوحات اور کارناموں کی وجہ سے بیبرس کا نام مصر و شام میں صلاح الدین ایوبی کی طرح مشہور ہوا۔

بیبرس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بھیس بدلنے کا شوقین تھا۔ کبھی وہ گداگر کا روپ دھارتا اور کبھی مہمان بن کر دسترخوان پر اکیلا مزے اڑاتا دکھائی دیتا، بلا کا حاضر دماغ تھا۔ فطری طور پر جنگجو تھا اسکی عسکری صلاحیتیں دشت و صحرا میں پروان چڑھیں۔ اسے دمشق میں تقریباً 500 روپے میں فروخت کیا گیا وہ بحری مملوکوں کے جتھوں میں بطور تیر انداز شامل ہوا اور بالآخر انکا سردار بن گیا۔ وہ اکیلا خاقان اعظم کی یلغار کے سامنے حائل ہوا اور منگولوں کو تہس نہس کر دیا اسکے جوابی حملے نے فرانسیسی بہادروں کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی بلا کا خوش طبع انسان تھا گھوڑے پر سوار ہو کر اکیلا نکل جاتا تو دوسرے دن فلسطین میں نمودار ہوتا اور چوتھے دن صحرائے عرب میں ملتا ۔ بڑا حوصلہ مند تھا ایک ایک دن میں میلوں کی مسافت طے کر لیتا۔

جب سلطان بنا تو اس کے مشیروں اور وزیروں کو بھی اسکے عزائم کا علم نہ ہوتا ہر شخص کو یہی خیال رہتا ممکن ہے سلطان اسکے قریب بیٹھا اسکی باتیں سن رہا ہو ، لوگ اسکے کارنامے سن کر خوش ہوتے لیکن اسکے تقرب سے گھبراتے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک دن بیبرس نے ایک تاتاری سپاہی کا بھیس بدلا اور تن تنہا شمال کی طرف غائب ہو گیا کئی دن سفر کرنے کے بعد وہ تاتاریوں کے علاقے میں داخل ہوا اور جگہ جگہ گھوم پھر کر حالات کا جائزہ لینے لگا ۔ انگریز مصنف ہیر لڈیم اس کے بارے میں لکھتا ہے کہ مختلف زبانوں میں مہارت رکھنے کی وجہ سے وہ ہر قسم کے لوگوں میں گھل مل جاتا اسلئے اس پر کسی کو شبہ نہ ہوا ایک دن اس نے تاتاری علاقے کے کسی نانبائی کی دکان پر کھانا کھایا اور ایک برتن میں اپنی شاہی انگھوٹی اتار کر رکھ دی پھر اپنے علاقے میں واپس آگیا اور وہاں سے تاتاری فرمانروا کو خط لکھا۔

”میں تمہاری مملکت کے حالات کا معائنہ کرنے کیلئے فلاں جگہ گیا تھا نانبائی کی دکان پر انگھوٹی بھول آیا ہوں مہربانی فرما کر وہ انگھوٹی مجھے بھجوا دو کیونکہ وہ مجھے بہت پسند ہے۔‘‘ قاہرہ کے بازاروں میں لوگ یہ قصہ سن کر قہقہے لگاتے تھے۔ ایک دفعہ سلطان بیبرس عیسائی زائر کا بھیس بدل کر صلیبیوں کے مقبوضہ علاقوں میں داخل ہوا اور کئی ہفتوں تک انکے فوجی انتظامات کا جائزہ لیتا رہا کہا جاتا ہے کہ وہ تقریباً 20 ایسے قلعوں کو دیکھنے میں کامیاب ہوا جو عیسائیوں کی قوت کا مرکز تھے ایک دن اس نے قاصد کا بھیس بدلا اور ایک ہرن کا شکار لے کر سیدھا انطاکیہ کے حاکم بوہمنڈ کے دربار جا پہنچا جب بیبرس قلعے سے باہر گیا تو کسی نے آکر بوہمنڈ کا بتایا یہ ایلچی خود سلطان تھا یہ سن کر بوہمنڈ پر لرزاں طاری ہو گیا۔ بیبرس کی بیدار مغزی نے جہاں اسے اپنی عوام کی آنکھوں کا تارا بنا رکھا تھا وہاں دشمنوں کے دل پر ایسی ہیبت طاری کر دی تھی کہ سب اس کا نام سن کر تھراتے تھے۔

تاتاریوں کو انکی عروج میں روکنے والا یہی جنگجو تھا۔ معرکہ عین جالوت کا ہیرو بھی بیبرس کو ہی کہا جاتا ہے ۔ اس کے سامنے جب کوئی ہلاکو خان کے ظلم و جبر کی باتیں کرتا تو بیبرس قہقہہ لگا کر کہتا” وقت آنے دو تاتاریوں کو ہم دکھا دیں گے کہ لڑنا صرف وہ نہیں جانتے۔‘‘ تاتاریوں کے عروج کے دور میں سلطان بیبرس کے دربار میں جب ہلاکو کے ایلچی آئے اور بدتمیزی سے بات کی تو بیبرس نے انکے سر قلم کر کے قاہرہ کے بازاروں میں لٹکا دئیے تاکہ لوگوں کو پتہ چل جائے کہ اب لڑنا ہو گا یا مرنا ہو گا ۔  تاریخ گواہ ہے کہ مصر کے اس بہادر نے تاتاریوں کو پہلے ہی معرکے میں ایسی شکست دی کہ اس کے بعد وہ آگے بڑھنے کی ہمت کھو بیٹھے۔ بیبرس نے یکم جولائی 1277ء کو وفات پائی اور اسے دمشق کے المکتبۃ الظاہریۃ میں دفن کیا گیا ۔

طیبہ بخاری

بشکریہ دنیا نیوز

عظیم منگول قبیلے کا سردار قبلائی خان طاقتور حکمران کیسے بنا ؟

یہ 1227 عیسوی کا ذکر ہے جب عظیم منگول قبیلے کا سردار تیموجن (دنیا اسے چنگیز خان اور خاقان اعظم کے نام سے بھی جانتی ہے ) جب اپنی زندگی کی آخری جنگ لڑتے ہوئے گھوڑے سے گر کر صاحب فراش ہوا ، یہ اس کی زندگی کا خلاف توقع واقعہ تھا ۔ شاہی خیمے میں بیٹے، پوتے، مشیر ، وزیر اور معتمد خاص سر جھکائے پریشان ، گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے تھے، خود تیموجن سردار ایک ایک درباری کا خاموشی مگر پھٹی پھٹی نظروں سے جائزہ لے رہا تھا ۔ سردار لاکھوں افراد کی زندگیوں کے فیصلے کیا کرتا تھا، وہ خود کو موت پر بھی حاوی سمجھ بیٹھا تھا۔ اس پر ہی کیا موقوف ، رعایا کو بھی یقین تھا کہ موت سردار کے قریب بھی نہیں آ سکتی۔ اب اسکی پھٹی پھٹی نگاہیں پیغام دے رہی تھیں کہ وہ قانون قدرت کا ادراک کر چکا ہے ۔

یہ وہی سردار تھا جس کے جرنیل دیکھتے ہی دیکھتے، چند عشروں میں خون کی ہولی کھیلتے، کھوپڑیوں کے مینار بناتے تھے۔ ہنستے بستے شہروں اور دیہات کو ویران کر کے بیجنگ سے ماسکو تک اپنا جھنڈا گاڑ کر دنیا کی سب سے وسیع سلطنت کے حکمران بن چکے تھے ، یہ سلطنت تین کروڑ مربع کلو میٹر پر محیط تھی۔ منگول سلطنت ایشیاء اور یورپ کے بڑے علاقوں پر مشتمل تھی۔ وسعت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ آج ان علاقوں کی کل آبادی تین ارب نفوس پر مشتمل ہے ۔ یقینا سردار لیٹا سوچ رہا ہو گا کہ کہاں کروڑوں پر میل پھیلی ہوئی سلطنت اور کہاں یہ چند گز پرمشتمل جنگی خیمہ۔ جس میں سردار کے چاروں بیٹے ، گیارہ پوتے ، وزراء اور مشیران بھی دم سادھے کھڑے تھے ۔ سردار نے اچانک گیارہ سالہ بچے پر اپنی نظریں جما لیں اور اگلے ہی لمحے اس مرد شناس سردار نے انگلی کے اشارے سے بچے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ”میرا یہ پوتا مجھ سے کہیں بڑی سلطنت کا مالک ہو گا اور مجھ سے کہیں زیادہ بڑی عمر پائے گا‘‘۔ اپنے پوتے قبلائی خان کے بارے پیش گوئی کرنے والے منگول سردار چنگیز خان کی وفات کے تیس سال بعد پیش گوئی سچ ثابت ہوئی اور قبلائی خان اپنے دادا سے بھی بڑی سلطنت کا حکمران بنا۔

قبلائی خان چنگیز خان کے سب سے چھوٹے بیٹے تولوئی خان کا بیٹا تھا جیسے تولوئی خان اپنے باپ کا سب سے لاڈلہ بیٹا تھا عین اسی طرح قبلائی خان بھی اپنے باپ کا لاڈلہ بیٹا تھا۔ قبلائی خان 1215ء میں چین کے صوبے گنسو کے شہر ینگی میں بدھ مت کے پروکاروں کی عبادت گاہ ڈافو میں پیدا ہوا ۔ بچپن ہی سے چنگیز خان قبلائی خان کی رائے کو مقدم جانتا تھا۔ اور ہمیشہ اپنے وزیروں کو کہتا تھا کہ میری عدم موجودگی میں سلطنت کے معاملات قبلائی خان دیکھا کرے گا۔ چنگیز خان ، قبلائی خان کی ہر بات کو غور سے سنتا تھا۔ وہ انتہائی زیرک اور باشعور تھا۔سیاسیات ، فلسفہ، معاشرتی علوم کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کی متعدد زبانوں پر اسے عبور حاصل تھا۔ 1251 ء میں چنگیز خان کی وصیت کو پس پشت ڈالتے ہوئے قبلائی خان کے بھائی مونکے خان کو منگول سلطنت کا سردار بنا دیا گیا ۔ انہوں نے قبلائی خان کو جنوبی چین کا گورنر مقرر کرتے ہوئے اسے ڈالی سلطنت کو فتح کرنے کی ذمہ داری سونپ دی ۔ قبلائی خان کے جنگی اور قائدانہ سفر کی یہیں سے شروعات ہوئیں۔ اس نے تھوڑے ہی عرصہ میں جنوبی چین کو فتح کر ڈالا۔ اس نے اپنا دارالحکومت چینی شہر شانگ ٹو میں قائم کر لیا ۔ جنوبی چین میں اس نے شاندار قیام گاہیں، شکار گاہیں اور محلات تعمیر کرائے ۔

مونکے خان اپنے دادا چنگیز خان کی طرح انتہائی سفاک اور ظالم حکمران تھا ۔ اس کے دور میں سقوط بغداد کا سانحہ رونما ہوا جس میں آخری عباسی خلیفہ کو قتل کر دیا گیا، ایک اندازے کے مطابق اس نے آٹھ لاکھ افراد قتل کئے۔ لیکن 1259ء میں ہوچو کے مقام پر ایک جنگ میں مونکے خان مارا گیا اور یوں قبلائی خان خاقان اعظم مقرر ہوا۔ 1261ء میں اپنے بھائی اریک بوک کو شکست دے کر وہ خود منگول سلطنت کا بادشاہ بن گیا۔ اس کا بھائی اریک بوک فرار ہو کر در بدر پھرتا رہا۔ آخر کار 1266ء میں قبلائی خان کے ہاتھوں مارا گیا ۔ اگرچہ چنگیز خان نے اپنی زندگی میں چین کے بھی بہت سارے علاقے فتح کر لئے تھے لیکن باوجود خواہش کے چین کا مکمل کنٹرول حاصل کرنے میں وہ کبھی کامیاب نہ ہو سکا ۔ چنانچہ اس کا یہ خواب پوتے قبلائی خان نے پورا کر دکھایا۔ اس نے نہ صرف پورے چین پر قبضہ حاصل کر لیا تھا بلکہ وہاں ایک نئی بادشاہت کی بنیاد بھی رکھی جسے تاریخ ”یو آن ‘‘کے نام سے جانتی ہے۔ قبلائی خان کی سلطنت اتنی وسیع تھی کہ اس کا احاطہ کرنا مشکل تھا۔ اس نے ہر ناممکن کام کو ممکن بنایا۔

چین اور اردگرد کے علاقوں پر مشتمل قبلائی حکومت مختلف تہذیبوں کا مرقع تھی ، علاوہ ازیں علوم و فنون کے نابغہ روزگار افراد کے منگول سلطنت میں جمع ہو جانے کی وجہ سے منگول بھی اپنی فطرت اور روایات تبدیل ہونے پر مجبور ہو گئے۔ قبلائی خان اپنے دادا، باپ اور بھائیوں کی شہرت کو ناپسند کرتا تھا اس لئے اس نے قدیم منگول روایات کی حوصلہ شکنی کر کے بہت جلد اپنی مرضی کی باتیں مسلط کر دیں۔ معروف سیاح مارکو پولو قبلائی خان کے دربار میں لگ بھگ بیس سال تک ملازمت کرتا رہا ۔ مارکو پولو نے قبلائی خان کی ذاتی زندگی بارے دلچسپ باتیں تحریر کی ہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ قبلائی خان کی چار بیویاں اور کثیر تعداد میں باندیاں بھی تھیں۔ مارکو پولو کہتا ہے کہ قبلائی خان نے ایک ایسا محل بھی تعمیر کرایا تھا جس کے گرد 25 کلومیٹر لمبی دیوار بنائی گئی تھی ۔ اس محل میں بیک وقت ایک ہزار گھوڑے داخل ہو سکتے تھے ۔

محل کے میں ہال میں 16 ہزار نشستوں کی گنجائش تھی۔ اس ہال سونے چاندی اور قیمتی ریشمی کپڑے سے مزین کرسیاں رکھی گئی تھیں۔ شانگ ٹو میں قبلائی خان کے محل اور اس کے گرد و نواح کو دنیا کے کونے کونے سے لائے گئے قیمتی ، نایاب اور خوبصورت درختوں اور پودوں پر مشتمل باغات سے سجایا گیا تھا۔ آگے چل کر مارکو پولو لکھتا ہے کہ خاقان کی موجودگی میں دربار شاہی سے آدھے میل تک کسی قسم کے شور وغل یا اونچی آواز میں بولنے کی اجازت نہ تھی۔ دربار میں حاضر ہونے کے لئے ہر شخص کو سفید چمڑے کے جوتے پہننا پڑتے تھے تاکہ سونے چاندی کی تاروں سے مزین قیمتی قالین خراب نہ ہوں۔ 1294 میں تقریباََ 80 سال کی عمر میں قبلائی خان زندگی کی بازی ہار گیا منگول روایات کے مطابق اس کی چاروں بیویوں اور خادماؤں کو زندہ دفن کیا گیا، اس وہم کے ساتھ کہ وہ اس کی آئندہ کی زندگی میں خدمت کریں گی۔ اس کی وفات کے بعد سلطنت کا شیرازہ بکھرتا چلا گیا۔

خاور نیازی

بشکریہ دنیا نیوز

بخت نصر ۔۔۔۔ بابل کا ظالم بادشاہ

بخت نصر ( 605 قبل مسیح سے 562 قبل مسیح تک ) اپنے زمانے کا سفاک ترین اور ظالم بادشاہ تھا، اکثر مورخین کہتے ہیں کہ اس کے دماغ میں ہر لمحہ ” فتح کر لو‘‘ کا بھوت سمائے رہتا تھا۔ جنگ جو تو تھا ہی ہر لمحہ کچھ کر گزرنے کا بھوت بھی اس کے سرپر سوار رہتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ بلا کا ذہین اور اعتماد کی دولت سے مالا مال تھا۔ اسے بنو کد نصر کے نام سے بھی یاد کیا جاتا تھا۔ ملک بابل کا بادشاہ تھا ۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ بابل موجودہ عراق کے قدیم نام ”میسو پو ٹیمیا ‘‘ کا ایک قدیم شہر تھا ۔”میسوپوٹیمیا‘‘ قدیم تہذیب کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ بابل کلدانی سلطنت کا دارلحکومت تھا جو موجودہ بغداد سے لگ بھگ 65 کلومیٹر کی مسافت پر دریائے فرات کے کنارے آباد تھا۔ 1750 قبل مسیح میں ”بابی لونیا ‘‘ کے بادشاہ حمو رابی نے اسے دارالسلطنت بنایا تو یہ دنیا کا خوبصورت ترین شہر بن گیا ۔ 4000 سال قبل مسیح کی تحریروں میں بھی اس شہر کا ذکر ملتا ہے۔ 689 قبل مسیح میں بادشاہ بنو کد نصر یا بخت نصر نے اسے دوبارہ تعمیر کرایا، پرانا شہر دریائے فرات کے کنارے چونکہ آباد تھا، بخت نصر نے دریا پر پل بنوایا ، اور مغربی کنارے کا ایک وسیع علاقہ بھی شہر کی حدود میں شامل کر لیا۔ اس کے عہد میں شہر کی آبادی 5 لاکھ نفوس پر مشتمل تھی۔

بخت نصر کا باپ ”نبو لاسر‘‘ بھی بابل کا بادشاہ تھا۔ باپ نے صلاحیتوں کو بھانپتے ہوئے اسے مصر پر حملے کے لئے بھیجا۔ اس نے زمانہ شہزادگی میں ہی مصر فتح کر ڈالا۔ اپنے باپ نبو لاسر کی وفات کے بعد یہ تخت نشیں ہوا۔ اس کے عہد سلطنت میں زیادہ تر دولت بابل کی قلعہ بندی اور تعمیرات پر خرچ ہوتی رہی، اس کا محل عجوبہ تھا۔ اس کے تعمیر کردہ ”معلق باغات‘‘ دنیا کے سات قدیم عجائبات میں دوسرے نمبر پر شمار ہوتے ہیں ۔ ایک روایت کے مطابق اس نے یہ باغات اپنی ملکہ شاہ بانو (ایرانی) کی خوشی کی خاطر تعمیر کروائے تھے کیونکہ وہ ہر وقت اپنے ملک کی سرسبز و شاداب وادیوں کو یاد کرتی رہتی تھی، 80 فٹ بلند یہ باغات معلق نہ تھے بلکہ ایسی جگہ لگائے گئے تھے جو درجہ بدرجہ بلند ہوتی ہوئی 350 فٹ تک پہنچ گئی تھی۔ ان باغات کے علاوہ بنو نصر کے زمانے میں بابل علم وادب اور تہذیب و تمدن کا بڑا مرکز بھی مانا جاتا تھا۔

یہ چھٹی صدی قبل مسیح کی بات ہے ، بنی اسرائیل کی سرکشی ، نافرمانیاں اور مشرکانہ حرکتیں حد سے تجاوز کر چکی تھیں ۔ ہر طرف ظلم و جبر ، فساد اور لوٹ مار کا بازار گرم تھا۔ تو قوم عمالقہ کا یہ ظالم بادشاہ بابل سے ایک بہت بڑی فوج کے ساتھ آندھی وطوفان کی مانند راستے میں آنے والی تمام حکومتوں کو پامال کرتا ہوا فلسطین پہنچ گیا ۔ تھوڑے ہی عرصے میں اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ چالیس ہزار سے زائد علماء کو قتل کر دیا یہاں تک کہ وہاں ایک عالم بھی زندہ نہ بچا۔ بخت نصر بنی اسرائیل کے اسی ہزار افراد کو قیدی بنا کر بابل لے گیا۔ بخت نصر کی فوج نے بیت المقدس میں عظیم الشان محلات کو کھنڈرات میں بدل دیا۔ ہیکل سلیمانی میں موجود وسیع وعریض نادر نایاب کتب سے مزین کتب خانہ جلا کر راکھ کر دیا جن میں دوسرے مذاہب کے اصلی نسخے بھی شامل تھے۔ قدرت کسی قوم پر اپنا قہر اور عذاب ایک دم سے نازل نہیں فرماتی بلکہ انہیں پہلے سدھرنے کے پورے پورے مواقع فراہم کرتی ہے ، پھر اسے جھنجوڑتی ہے اور سبق سکھاتی ہے ۔ تفسیر فاران میں ہے کہ جب یہودیوں نے فساد شر انگیزی اور اللہ کے احکامات سے روگردانی کی تو اللہ عزو جل نے کسی ایسے شخص کو ان پر مسلط کر دیا جس نے ان کو ہلاکت اور بربادی سے دو چار کر دیا۔

پہلے جب انہوں نے فتنہ فساد کیا اور توریت کے احکامات کو رد کیا تو بخت نصر کو انکی طرف بھیجا جس نے انکو تہس نہس کر دیا۔ کچھ عرصہ بعد جب دوبارہ انہوں نے سر اٹھایا تو طیطوس رومی نے انکی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ پھر کچھ عرصہ بعد جب دوبارہ انہوں نے شرانگیزی شروع کی تو فارسی مجوسیوں نے ان کا حشر نشر کر دیا۔ اس طرح 515 قبل مسیح میں بیت المقدس دوبارہ آباد ہوا ۔ بنی اسرائیل نے حضرت عزیر السلام کی موجودگی میں رو رو کر توبہ کی اور آئندہ خدا کے احکام کے مطابق زندگی گزارنے کا عہد کیا۔ لیکن یہ زندگی بنی اسرائیل کو پھر راس نہ آئی ۔ فارغ البالی نصیب ہوئی تو ایک دوسرے سے اختلاف اور جھگڑے پھر معمول کا مشغلہ بن گئے۔ یہاں تک کہ رفتہ رفتہ بنی اسرائیل پھر اسی حالت کو پہنچ گئے جس میں ان پر بخت نصر کی شکل میں عذاب نازل ہوا تھا۔

خاور نیازی

بشکریہ دنیا نیوز

بیبرس : منگولوں کی موت بننے والا ایک غلام

بارہویں صدی عیسوی میں چنگیز خان کی قیادت میں صحرائے گوبی کے شمال سے خوں خوار منگول بگولا اٹھا جس نے صرف چند دہائیوں میں ہی دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ منگول لشکروں کے سامنے چین، خوارم، وسط ایشیاء، مشرقی یورپ اور بغداد کی حکومتیں ریت کی دیواریں ثابت ہوئیں، منگول حملے کا مطلب بے دریغ قتل عام اور شہر کے شہر کی مکمل تباہی تھی…..دنیا تسلیم کر چکی تھی کہ ان وحشیوں سے مقابلہ ناممکن ہے، منگول نا قابل شکست ہیں، انہوں نے اول خوارزم کی اینٹ سے اینٹ بجائی اور پھر پانچ سو سال سے زائد قائم خلافت عباسیہ کو انجام سے دوچار کیا، انہوں نے خوارزم میں کھوپڑیوں کے مینار بنائے تو بغداد میں اتنا خون بہایا کہ گلیوں میں کیچڑ اور تعفن کی وجہ سے عرصے تک چلنا ممکن نہ رہا۔ اس پرآشوب دور میں مسلمانوں کی حیثیت کٹی پتنگ کی سی تھی، مسلمان نفسیاتی طور پر کسی مقابلے کے قابل نظر نہ آتے تھے. ایسے میں مصر میں قائم مملوک سلطنت ایک مدھم سی امید کی لو تھی وہی سلطنت جس کی بھاگ دوڑ غلام اور غلام زادوں کے ہاتھ میں تھی ”منگول۔ یوروپی ایکسز‘‘ کا اگلا ہدف بھی یہی مسلم ریاست تھی۔

وہ آخری ریاست جس کی شکست مسلمانوں کے سیاسی وجود میں آخری کیل ثابت ہوتی، مملوک بھی اس خوفناک خطرے کا پورا ادراک رکھتے تھے، وہ جانتے تھے آج نہیں تو کل یہ معرکہ ہو کر رہے گا۔ اور یہ معرکہ ہوا۔ سن تھا ستمبر 1260ء کا، اور میدان تھا ”عین جالوت‘‘! منگول مسلم سیاسی وجود کو ختم کرنے سر پر آن پہنچ چکے تھے، کسی طوفان کی طرح ، جو بڑی بڑی سلطنتوں کوخس و خاشاک کی طرح بہا کر لے گئے تھے آج ان کے مد مقابل مملوک تھے جسکی قیادت رکن الدین بیبرس کر رہا تھا، وہی بیبرس جو کبھی خود بھی فقط چند دینار کے عوض فروخت ہوا تھا، کم وسائل اور عددی کمتری کے باوجود بیبرس کو یہ معرکہ ہر حال میں جیتنا تھا۔ مسلمانوں کی سیاسی بقاء اور آزادی کو قائم رکھنے کے لیے آخری سپاہی، آخری تیر اور آخری سانس تک لڑائی لڑنی تھی ۔ طبل جنگ بجا، بد مست طاقت اور جنون کے درمیان گھسمان کا رن پڑا، طاقتور منگول جب اپنی تلوار چلاتے تھے تو ان کا وار روکنا مشکل ترین کام ہوتا تھا لیکن آج جب مملوک وار روکتے تو تلواریں ٹکرانے سے چنگاریاں نکلتیں اور پھر جب جوابی وار کرتے تو منگولوں کے لیے روکنا مشکل ہو جاتا۔

منگولوں نے مملوکوں کو دہشت زدہ کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن یہ وہ لشکر نہیں تھا جو مرعوب ہو جاتا۔ انہوں نے کبھی ایسے جنونی لشکر کا سامنا نہیں کیا تھا ۔ وہ پہلے پسپا ہوئے اور پھر انہونی ہوئی ، منگول میدان جنگ سے بھاگ کھڑے ہوئے، مملوکوں نے انہیں گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا، معاملہ یہاں تک پہنچا کہ بھاگتے منگولوں کو عام شہریوں نے بھی قتل کرنا شروع کر دیا۔ اور یہ وہم کہ ”منگول ناقابل شکست ہیں‘‘ ،”عین جالوت‘‘ کے میدان میں ہمیشہ کے لیے دفن ہو گیا۔ ”غلاموں‘‘ نے رکن الدین بیبرس کی قیادت میں مسلم سیاسی وجود کی جنگ جیت لی اور رہتی دنیا تک یہ اعزاز اپنے نام کر لیا۔ اس معرکے کے بعد منگول پیش قدمی نہ صرف رک گئی بلکہ آنے والے برسوں میں بیبرس نے منگول مفتوح علاقے بھی ان سے واپس چھین لیے۔

”فتوحات کا باپ‘‘: منگولوں کو عبرت ناک شکست دینے کے بعد دنیا بھر میں اس کی دھاک بیٹھ گی اور وہ ”ابوالفتح ‘‘ یعنی فتوحات کا ابو کہلایا۔ دنیا بھر میں ان کے نام کا ڈنکا بجتا تھا، منگول تو کیا اہل مغرب بھی ان کے نام سے ڈرتے تھے، رکن الدین بیبرس نے اپنی خداداد صلاحیت سے” منگول یوروپئن نیکسس‘‘ کو بھی توڑ ڈالا ۔ اور صلیبی جنگوں میں بھی فاتح رہا، فرانسیسی بادشاہ کنگ لوئیس نہم کو شکست دینے والی مصری فوج کا بھی کمانڈر تھا، اس نے کمزور اور کم ترقی یافتہ فوج کو بھی فرانسیسی بادشاہ کے سامنے کھڑا کر دیا اور انہیں بھاگنے پر مجبور کیا۔ مسلم دنیا اپنے اس عظیم ہیرو کے متعلق بہت کم جانتی ہے ایک ایسا ہیرو جس نے ان کے سیاسی وجود کی جنگ بڑی بے جگری سے لڑی، جس کی پشت پر کوئی قبیلہ بھی نہ تھا اور جو کبھی فقط چند دینار کے عوض بکا تھا لیکن جو مصائب کا مقابلہ کرنا جانتا تھا جو ہمت نہیں ہارتا تھا اور جو امید کا دامن کبھی بھی نہیں چھوڑتا تھا۔ ترکی النسل بیبرس کے نام کا مطلب ہے کہ امیر، لارڈ، نوبل،۔ یہ حکمران کے معنی میں بی لیا جاتا ہے۔ جبکہ چیتا اس کے عام معنی ہیں۔

غیر ملکی طاقت کا خاتمہ: ۔ اس کا دور شام اور مصر میں قائم مملکت کے تحفظ کے حوالے سے مثالی مانا جاتا ہے، جب اس نے خطے سے یورپی حملہ آوروں کے خوف کا خاتمہ کر دیا تھا۔ وہ ایک ڈھال تھا، اس نے ان علاقوں کو منگولوں اور صلیبی جنگوں کے شوقین مغربی حملہ آروں سے محفوظ بنا دیا تھا، خطے کو لوگ سکھ کا سانس لے سکتے تھے۔ یہی نہیں اس نے مصری سلطنت میں وسعت بھی پیدا کی۔ پیدائش ابتدائی زندگی اور بادشاہت: اس کے آباء او اجداد بحر اسود کے شمال میں واقع ”دشت کپ چک‘‘ کے باشندے تھے، تاہم پیدائش کی تاریخوں کے بارے میں کچھ ابہام پایا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے 12 دسمبر 1227ء سے 29 نومبر 1228ء کے درمیانی عرصے میں جنم لیا۔ بعض تاریخی کتب میں 1247ء میں اس کی عمر 24 برس درج ہے جس سے سن پیدائش 1223ء بنتا ہے۔ اس کا خاندان منگولوں کے قبیلے سے نکل کر 1242ء میں بلغاریہ پہنچا تھا، لیکن جلد ہی منگولوں نے بلغاریہ کو بھی سرنگوں کر لیا ، جنگ میں منگولوں نے اس کے والدین کو سنگنیوں کی نوک پر لے لیا۔ یہ وحشت ناک منظر وہ کبھی نہیں بھولا۔ بعد میں وہ دو بار بکا، اور یہ خرید و فروخت منگولوں کی موت کی بن گئی۔

پہلے یہ غلام ”سواس‘‘ کی غلام منڈی میں بیجا گیا۔ بعد ازاں وہ دوسری غلام منڈی ”ہما‘‘ میں فروخت ہوا، یہ اعلیٰ افسر الہ الدین ادیکن البندوکری اسے ترقی دینے کی نیت سے مصر لے آیا، لیکن قسمت میں ابھی اور سیکھنا لکھا تھا۔ کیونکہ جب اس کے آقا کو ہی حکمران مصر الصالح الایوب نے گرفتار کر لیا تو سبھی غلام بھی زیر حراست چلے گئے۔ بادشاہ ایوب نے بیبرس کو اپنی فوج کا کمانڈر بنا دیا۔ وہ غزہ کے مشرق میں لڑی جانے والی ‘جنگ لافوربی ‘ میں فاتح بن کر نکلا۔ :1260ء میں منگولوں کوعبرت ناک شکست دینے کے بعد وہ فاتح مصر بنا۔ سیف الدین قتوز جنگ میں گھائل ہونے کے بعد چل بسے۔ 24 اکتوبر کو اس کی رسم تاج پوشی ادا کی گئی، اس کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ تین بیٹوں میں سے دو تخت (السید الباراخ اور سلامیش ) نشین ہوئے ۔یوں ایک غلام نے مصر میں بھی سلطنت کی بنیاد رکھی۔

ایم آر ملک

بشکریہ دنیا نیوز

قلعہ روہتاس اور شیر شاہ سوری

کچھ لوگ ہماری آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں لیکن ان کی شخصیت کے ان مٹ رنگ ہمیں ان کے وجود کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔ پوٹھوہار کے خطے میں تاریخ کے آثار یہاں وہاں بکھرے ملتے ہیں‘ انہیں میں ایک قلعہ روہتاس ہے۔ یہ جہلم سے تقریباً 16 کلومیٹر اور دینہ سے 6 کلومیٹر کی دوری پر ہے۔ آج میں مدتوں بعد یہاں آیا ہوں‘ تقریباً تین دہائیوں کے بعد۔ اس قلعے کی کہانی عجیب ہے اور اس کو تعمیر کرنے والے کی کہانی عجیب تر۔ اب تو یہاں تک پہنچنے کا راستہ کافی بہتر ہو چکا ہے۔ مجھے یاد ہے جب میں پہلی بار یہاں آیا تھا تو راستے میں پانی کی رکاوٹ تھی جس میں ہماری گاڑی پھنس گئی تھی۔ 1997ء میں قلعہ روہتاس کو ورلڈ ہیریٹیج سنٹر قرار دے دیا گیا تھا‘ جس کے نتیجے میں اس تاریخی ورثے کو محفوظ بنانے کے اقدامات کیے گئے ہیں۔ قلعے کی چوڑی دیوار پر کھڑے ہوں تو دور کے مناظر دکھائی دیتے ہیں۔ اب تو درمیان میں آبادیاں آ گئی ہیں‘ لیکن سولہویں صدی میں جب یہ قلعہ بنا تھا تو اس کو تعمیر کرنے والوں نے جگہ کا سوچ سمجھ کر انتخاب کیا تھا۔

قلعہ جس جگہ تعمیر کیا گیا وہ سطح سمندر سے کافی بلندی پر واقع تھی‘ جس کے قریب ہی پانی کی فراوانی تھی۔ قلعے کی دیوار سے کشمیر سے آنے والا راستہ بالکل نگاہوں کے سامنے آتا ہو گا۔ یہ قلعہ شیر شاہ سوری نے 1541ء میں تعمیر کرنے کا حکم دیا تھا تاکہ ایک طرف مغلوں کے وفادار گکھڑ قبائل پر نظر رکھی جا سکے جہاں سے اس کا حریف ہمایوں کسی وقت بھی واپس آ سکتا تھا۔ وہی ہمایوں جو کبھی ہندوستان میں سلطنتِ مغلیہ کا طاقتور بادشاہ تھا اور شیر شاہ سوری کے ہاتھوں شکست کھا کر ایران بھاگ گیا تھا۔ قلعے کی دیواروں پر موسم سرما کی اجلی دھوپ پھیلی ہوئی ہے اور میں ایک پتھر سے ٹیک لگا کر بیٹھ جاتا ہوں۔ آنکھیں بند کر کے شیر شاہ سوری کا تصور کرتا ہوں جس نے تن تنہا مغلوں کی مضبوط حکومت کو شکست دی تھی۔ اس حیران کن کہانی کی ابتدا 1486ء میں ہوتی ہے جب حسین خان کے گھر ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام فرید خان رکھا گیا۔

جب ابراہیم سور اپنے بیٹے حسین کے ہمراہ پنجاب آئے تو یہ بہلول لودھی کا دور تھا اور انہیں پنجاب میں جلال خان کے پاس ملازمت حاصل کرنے میں کوئی مشکل پیش نہ آئی۔ حسین کی محنت اور وفاداری نے جلال خان کا دل جیت لیا اور اس نے سہسرام، کان پور ٹانڈا، حاجی پور اور خواص پور کی وسیع و عریض جاگیریں حسین کے نام کر دیں۔ یہ حسین کی محنت اور وفاداری کا انعام اور اعتراف تھا۔ یہیں حسین کے گھر فرید خان پیدا ہوا۔ حسین کی اولاد میں سب سے بڑا ہونے کی وجہ سے وہ حسین کا وارث تھا لیکن سوتیلی ماں باپ بیٹے کے درمیان دیواریں کھڑی کرنے میں مصروف رہتی تھی۔ فرید خان اس سارے ماحول سے تنگ آ کر گھر سے چلا گیا۔ ان کی منزل جون پور تھی۔ جون پور اس زمانے میں ثقافت اور علم کا ایک مرکز تھا۔ یہاں فرید خان نے تین سال گزارے اور اس دوران علم و ادب اور عربی و فارسی زبانوں پر دسترس حاصل کی۔

اس کا اگلا پڑائو بہار تھا‘ جہاں بہار شاہ لوہانی کی حکمرانی تھی۔ جلد ہی بہار شاہ کو معلوم ہو گیا کہ فرید خان غیر معمولی صلاحیتوں کا مالک ہے۔ ایک بار جب بہار شاہ شکار پر تھا تو اچانک ایک شیر اس پر حملہ آور ہوا۔ اس سے پہلے کہ شیر اس کو کوئی گزند پہنچاتا فرید خان بجلی کی سی تیزی سے شیر کی طرف لپکا اور اپنی تلوار سے اس کا کام تمام کر دیا۔ موت بہار شاہ کو چھو کر گزر گئی۔ اس واقعے سے بہار شاہ کی نگاہوں میں فرید خان کا رتبہ اور بلند ہو گیا اور اس نے فرید خان کو شیر خان کا خطاب دیا۔ یہ خطاب فرید خان کے لیے خوش قسمتی کا سامان لایا اور پھر تاریخ نے فرید خان کو شیر شاہ سوری کے نام سے یاد رکھا۔ اس کے خواب اب نئی دنیاؤں کے متلاشی تھے۔ اسے اس کا موقع جلد ہی مل گیا۔ ظہیرالدین بابر ایک طوفان کی طرح آیا اور پانی پت کے میدان میں ابراہیم لودھی کو شکست دے کر ہندوستان کا حکمران بن گیا۔

یہ ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کی ابتدا تھی۔ یہ 1526ء کا سال تھا۔ اگلے ہی برس شیر شاہ نے مغلیہ دربار میں اپنی قسمت آزمائی‘ اپنی ذہانت، دلیری اور شجاعت سے مغل فوج میں اپنا مقام بنا لیا‘ بہار پر حملے میں بابر کے ہمراہ حصہ لیا‘ اور اپنی غیر معمولی جنگی مہارت کے جوہر دکھائے۔ شیر شاہ کا مغلیہ فوج میں قیام 1527ء سے 1528ء تک رہا۔ اس دوران اسے مغلوں کے نظامِ سیاست، نظامِ معیشت، عسکری نظام کو بغور پرکھنے کا موقع ملا۔ اس کی دوربین نگاہیں، مستقبل کا وہ منظر دیکھ رہی تھیں جس کا کسی کو اندازہ نہیں تھا‘ سوائے ایک شخص کے جس کا نام ظہیرالدین بابر تھا‘ جو ہندوستان کا حکمران تھا اور جس کے دربار سے شیر شاہ وابستہ تھا۔ ظہیرالدین بابر نے ایک دنیا دیکھی تھی۔ اس نے اپنی فوج کے جنگجو شیر شاہ کی آنکھوں میں وہ سب کچھ دیکھ لیا تھا جو شیر شاہ کے دل کا منظر تھا۔

بابر نے اپنے قریبی رفقا سے کہا کہ شیر شاہ کی کڑی نگرانی کی جائے۔ شیر شاہ بھانپ گیا کہ وہ بابر کا اعتماد کھو چکا ہے۔ ایک دن وہ اچانک واپس بہار پہنچ گیا اور اپنی طاقت میں اضافہ کرنے لگا۔ بہار شاہ لوہانی کا انتقال ہو چکا تھا۔ بہار شاہ کا بیٹا جلال ابھی چھوٹا تھا۔ عملاً شیر شاہ وہاں کا حکمران بن گیا تھا۔ بنگال کے حکمران سلطان محمود نے شیر شاہ پر حملہ کیا لیکن اسے عبرتناک شکست ہوئی۔ ادھر ظہیرالدین بابر کا 1530ء میں انتقال ہو گیا۔ بابر کے بعد اس کا بیٹا ہمایوں تخت پر بیٹھا۔ ادھر شیر شاہ سوری اپنی طاقت میں مسلسل اضافہ کر رہا تھا‘ حتیٰ کہ 1537ء تک شیر شاہ بہار، بنگال اور آسام کا حکمران بن چکا تھا۔ اب ایک بڑی جست لگانے کا وقت آ گیا تھا۔ شیر شاہ نے سلطنتِ مغلیہ سے ٹکر لینے کی ٹھان لی تھی۔ ادھر ہمایوں نے 1532ء میں ہونے والی جنگ میں محمود لودھی کو شکست دی‘ اور اس کے حوصلے بلند تھے۔ 1539ء میں ہمایوں نے آگرہ کی طرف بڑھتے ہوئے دریائے گنگا کو عبور کیا اور چوسہ کے مقام پر اپنا کیمپ لگایا۔

شیر شاہ کو اسی موقع کی تلاش تھی۔ شیر شاہ کی فوج نے ہمایوں کے لشکر پر حملہ کر دیا‘ اور مغلیہ فوج پسپا ہو گئی۔ چوسہ کی جنگ نے شیر شاہ کی برتری ثابت کر دی تھی‘ لیکن فیصلہ کن جنگ اگلے سال قنوج کے مقام پر ہوئی‘ جہاں شیر شاہ کی فوج نے ہمایوں کے لشکر کو عبرتناک شکست دی اور ہمایوں ہندوستان چھوڑ کر ایران کی طرف پسپا ہو گیا۔ یہ 1540ء کا سال تھا جب شیر شاہ سوری پورے ہندوستان کا حکمران بن گیا۔ اسے معلوم تھا کہ مغل اپنی شکست پر خاموش نہیں بیٹھیں گے‘ اسی لیے اگلے سال ہی اس نے قلعہ روہتاس کی تعمیر کا حکم دیا۔ ایک ایسا قلعہ جو کشمیر کے آنے والے راستوں کا نگران ہو۔ شیر شاہ سوری کی حکومت کا دورانیہ صرف 5 برس تھا۔ 1540ء سے 1545ء تک لیکن یہ پانچ سال ہندوستان کی تاریخ میں بہت سے اقدامات کے حوالے سے یاد رکھے جائیں گے‘ جن کے ثمرات ہم آج تک سمیٹ رہے ہیں۔

ان میں سرِفہرست ہندوستان کے مختلف علاقوں میں سڑکوں کی تعمیر تھی۔ ان میں ایک جرنیلی سڑک‘ جسے ہم جی ٹی روڈ کہتے ہیں‘ اسی دور کی یادگار ہے۔ سڑکوں کے کنارے سرائے خانوں کی تعمیر، ہر سرائے کے ساتھ ایک مسجد اور کنواں۔ اسی طرح روپیہ کا آغاز بھی شیر شاہ سوری کے دور میں ہوا۔ شیر شاہ کے زمانے میں امن وامان کا نظام بہتر ہوا، جرائم میں کمی آئی، ڈاک کا نظام متعارف ہوا، مالیہ کے نظام کا اجرا ہوا، تجارت میں ترقی، پیمائش کے پیمانے شروع ہوئے۔ ان سارے کارناموں کو دیکھیں اور پھر یہ دیکھیں کہ یہ سب کچھ محض پانچ سالوں میں کیا گیا تو یقین آ جاتا ہے کہ شیر شاہ ایک غیر معمولی شخصیت کا عسکری علوم کا ماہر اور انتہائی موثر ایڈمنسٹریٹر تھا‘ جس کی پوری زندگی حرکت سے عبارت تھی۔ اس کی موت بھی اس وقت ہوئی جب وہ کالنجر قلعے کا محاصرہ کیے ہوئے تھا اور قلعے کی مضبوط دیواروں کو توڑنے کے لیے بارود کا استعمال کیا جا رہا تھا۔ اپنے ہی بارود کے ایک گولے نے اسے گھائل کر دیا اور وہ جانبر نہ ہو سکا۔ اور آج روہتاس قلعے کی دیوار پہ بیٹھے میں سوچ رہا تھا‘ واقعی کچھ لوگ ہماری آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں لیکن ان کی شخصیت کے ان مٹ رنگ ہمیں ان کے وجود کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔

شاہد صدیقی

بشکریہ دنیا نیوز

Ertugrul

Ertugrul According to Ottoman tradition, he was the son of either Günduz Alp or Suleyman Shah, leader of the Kayı tribe of Oghuz Turks, who fled from western Central Asia to Anatolia to escape the Mongol conquests. According to this legend, after the death of his father, Ertuğrul and his followers entered the service of the Seljuks of Rum, for which he was rewarded with dominion over the town of Söğüt on the frontier with the Byzantine Empire. This set off the chain of events that would ultimately lead to the founding of the Ottoman Empire. Like his son, Osman, and their descendants, Ertuğrul is often referred to as a Ghazi, a heroic champion fighter for the cause of Islam.
Biography
Nothing is known with certainty about Ertuğrul’s life, other than that he was the father of Osman; historians are thus forced to rely upon stories written about him by the Ottomans more than a century later, which are of questionable accuracy. According to these later traditions, Ertuğrul was chief of the Kayı tribe of Oghuz Turks. As a result of his assistance to the Seljuks against the Byzantines, Ertuğrul was granted lands in Karaca Dağ, a mountainous area near Angora (now Ankara), by Ala ad-Din Kay Qubadh I, the Seljuk Sultan of Rûm. One account indicates that the Seljuk leader’s rationale for granting Ertuğrul land was for Ertuğrul to repel any hostile incursion from the Byzantines or other adversary. Later, he received the village of Söğüt which he conquered together with the surrounding lands. That village, where he later died, became the Ottoman capital under his son Osman I. Ottoman historians have differing opinions on whether Ertuğrul had two or possibly three other sons in addition to Osman: Gündüz Bey, and Saru Batu Savcı Bey or Saru Batu and Savcı Bey.
Legacy
A tomb and mosque dedicated to Ertuğrul is said to have been built by Osman I at Söğüt, but due to several rebuildings nothing certain can be said about the origin of these structures. The current mausoleum was built by sultan Abdul Hamid II in the late nineteenth century. The town of Söğüt celebrates an annual festival to the memory of the early Osmans. The Ottoman Navy frigate Ertuğrul, launched in 1863, was named after him. The Ertuğrul Gazi Mosque in Ashgabat, Turkmenistan, completed in 1998, is also named in his honor.
Courtesy : Wikipedia

A hero of our time: : Ertugrul

Ertugrul

Ertugrul According to Ottoman tradition, he was the son of either Günduz Alp or Suleyman Shah, leader of the Kayı tribe of Oghuz Turks, who fled from western Central Asia to Anatolia to escape the Mongol conquests. According to this legend, after the death of his father, Ertuğrul and his followers entered the service of the Seljuks of Rum, for which he was rewarded with dominion over the town of Söğüt on the frontier with the Byzantine Empire. This set off the chain of events that would ultimately lead to the founding of the Ottoman Empire. Like his son, Osman, and their descendants, Ertuğrul is often referred to as a Ghazi, a heroic champion fighter for the cause of Islam.

Biography
Nothing is known with certainty about Ertuğrul’s life, other than that he was the father of Osman; historians are thus forced to rely upon stories written about him by the Ottomans more than a century later, which are of questionable accuracy. According to these later traditions, Ertuğrul was chief of the Kayı tribe of Oghuz Turks. As a result of his assistance to the Seljuks against the Byzantines, Ertuğrul was granted lands in Karaca Dağ, a mountainous area near Angora (now Ankara), by Ala ad-Din Kay Qubadh I, the Seljuk Sultan of Rûm. One account indicates that the Seljuk leader’s rationale for granting Ertuğrul land was for Ertuğrul to repel any hostile incursion from the Byzantines or other adversary. Later, he received the village of Söğüt which he conquered together with the surrounding lands. That village, where he later died, became the Ottoman capital under his son Osman I. Ottoman historians have differing opinions on whether Ertuğrul had two or possibly three other sons in addition to Osman: Gündüz Bey, and Saru Batu Savcı Bey or Saru Batu and Savcı Bey.
Legacy
A tomb and mosque dedicated to Ertuğrul is said to have been built by Osman I at Söğüt, but due to several rebuildings nothing certain can be said about the origin of these structures. The current mausoleum was built by sultan Abdul Hamid II in the late nineteenth century. The town of Söğüt celebrates an annual festival to the memory of the early Osmans. The Ottoman Navy frigate Ertuğrul, launched in 1863, was named after him. The Ertuğrul Gazi Mosque in Ashgabat, Turkmenistan, completed in 1998, is also named in his honor.
Courtesy : Wikipedia

سلطان محمد الپ ارسلان : ایک متقی اور پرہیز گار حکمران

الپ ارسلان نے اپنے چچا طغرل بیگ کی وفات کے بعد زمام اقتدار اپنے ہاتھ میں لی۔ اگرچہ اقتدار کی خاطر ملک میں کچھ جھگڑے ہوئے لیکن الپ ارسلان نے ان تنازعات پر بروقت قابو پا کر حالات کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ الپ ارسلان اپنے مرحوم چچا طغرل بیگ کی طرح ایک نہایت مدبر، تجربہ کار لیڈر اور جرأت مند شخصیت کا مالک مخلص قائد تھا۔ اس نے ملکی سرحدوں کو وسیع کرنے کے لیے ایک نہایت ہی دانشمندانہ پالیسی اختیار کی، جو علاقے سلجوقی سلطنت کے زیرنگیں تھے، پہلے ان کے استحکام کو یقینی بنایا اور اس کے بعد بیرونی دنیا کی طرف پیش قدمی کی۔ سلطان الپ ارسلان جہاد فی سبیل اللہ اور اپنی پڑوسی مسیحی سلطنتوں میں اسلام کی اشاعت کے لیے بے قرار رہتا تھا۔ اس کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی کہ ارمن اور روم کے علاقے اسلامی قلم رو میں شامل ہوں۔ 

الپ ارسلان اپنی مملکت کی سرحدوں کو وسیع کرنے سے پہلے سات سال کے عرصہ تک اپنی مملکت کے دور دراز علاقوں کے حالات کا جائزہ لیتا رہا اور جب ان علاقوں میں امن و امان کی صورت حال سے مطمئن ہو گیا تو اپنے عظیم مقاصد کو پائے تکمیل تک پہنچانے کے لیے پلاننگ شروع کر دی۔ ان کے سامنے اب ایک ہی ہدف تھا۔ سلجوقی سلطنت کے پڑوس میں واقع مسیحی علاقوں کو فتح کرنا، فاطمی دولت کے اقتدار کو ختم کرنا اور تمام اسلامی دنیا کو عباسی خلفا اور سلجوقی اقتدار کے جھنڈے کے نیچے متحد کرنا۔ الپ ارسلان نے اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ایک بہت بڑا لشکر تیار کیا اور اس لشکر کی قیادت کرتا ہوا ارمن اور جارجیا کی طرف روانہ ہوا۔ یہ علاقے بہت جلد ان کے ہاتھوں فتح ہوئے۔

الپ ارسلان آگے بڑھا اور شام کے شمالی علاقے پر یورش کی، حلب میں مرداسی حاکم تھا۔ اس سلطنت کی بنیاد 1023ء میں صالح بن مرداس نے رکھی۔ الپ ارسلان نے مرداسی سلطنت کا محاصرہ کر لیا اور اس سلطنت کے فرمانروا محمود بن صالح بن مرداس کو مجبور کیا کہ وہ مصر کے فاطمی خلیفہ کی بجائے عباسی خلیفہ کی حکومت کو تسلیم کرے اور لوگوں کو اس حکومت کے احکامات کا پابند کرے۔ اس کے بعد الپ ارسلان نے ایک ترکی نژاد قائد اتنسزبن اوق خوارزمی کو جنوبی شام پر حملہ کرنے کے لیے بھیجا، خوارزمی نے فاطمیوں سے رملہ اور بیت المقدس چھین لیے لیکن عسقلان پر قبضہ نہ ہو سکا جسے مصری حدود میں داخلہ کے لیے ایک بہت بڑے دروازے کی حیثیت حاصل تھی۔ الپ ارسلان کی فتوحات نے رومی شہنشاہ ڈومانوس ڈیوجیس کو آتش زیرِپا کر دیا اور اس نے پختہ ارادہ کر لیا کہ وہ ہر قیمت پر اپنی شہنشاہیت کا دفاع کرے گا۔ سو اس مقصد کی خاطر اس نے اپنی پوری فوج سلجوقیوں کے خلاف جنگ میں جھونک دی۔ 

رومی اور سلجوقی فوجوں میں کئی خونریز معرکے ہوئے۔ ’’ملاذکرد‘‘ کا معرکہ ان سب میں زیادہ اہم ہے جو اگست 1070ء کو برپا ہوا۔ ابن کثیر لکھتے ہیں ’’اور اس معرکے میں روم کا بادشاہ ڈومانوس پہاڑ کی مانند لشکروں کو لے کر روانہ ہوا۔ ان لشکروں میں روم، روس، برطانیہ اور کئی دوسرے ملکوں کے سپاہی شریک تھے۔ ڈومانوس کی جنگی تیاریاں بھی خوب تھیں۔‘‘ الپ ارسلان کا ایک مختصر سے لشکر، جس کی تعداد 15 ہزار سے زیادہ نہیں تھی، کی مدد سے شہنشاہ روم ڈومانوس کے ایک لاکھ سپاہیوں پر مشتمل بہت بڑے لشکر کو شکست فاش سے دوچار کرنا کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا۔ اس واقعہ نے رومیوں کی کمر توڑ دی۔ الپ ارسلان ایک متقی اور پرہیز گار انسان تھا۔ فتح مادی اور معنوی ہر دو اسباب سے استفادہ کرتا تھا۔ اسلام کا یہ طبل جلیل اور عظیم سپہ سالار ایک باغی کے ہاتھوں شہید ہوا۔ اس باغی کا نام یوسف خوارزمی تھا۔ آپ کا سن وصال 1072ء ہے۔ آپ مرو کے شہر میں اپنے باپ کے پہلو میں دفن ہوئے اور ملک شاہ کو اپنے پیچھے جانشین چھوڑا۔

علی محمد الصلابی