بیت المقدس، پانچ ہزار برس قدیم شہر

یروشلم دنیا کا وہ واحد شہر ہے جو بیک وقت تین بڑے مذاہب کا مقدس شہر مانا جاتا ہے۔ مسلمان اسے نہایت عزت اور تکریم کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ یہی قبل اول تھا اور پیغمبر اسلام ﷺ نے معراج پر جانے سے پہلے اسی شہر میں واقع مسجد اقصیٰ میں تمام نبیوں کی امامت فرمائی تھی۔ یہیں سے آپ ﷺ معراج پر تشریف لے گئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان اور مسیحی ایک ہزار سال تک اس شہر پر اپنا قبضہ حاصل کرنے کے لئے برسر پیکار رہے ہیں۔

یروشلم کے لفظی معنی: تاریخی روایات کے مطابق لفظ ”یروشلم‘‘ دو عبرانی الفاظ ” یرو ‘‘ اور ” شیلم ‘‘سے ملکر بنا ہے جس کے معنی ”امن کا ورثہ ‘‘ کے ہیں۔ یہودیوں کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسے جریح کا نام دیا جس میں بادشاہ شالم نے 2008 قبل مسیح میں ”شیلم ‘‘ کا اضافہ کر دیا۔ مسلمانوں نے اس شہر کا نام القدس یعنی پاکیزہ شہر رکھا جس نے بیت المقدس کے نام سے شہرت پائی ۔

یروشلم کی تاریخ: ماہرین آثار قدیمہ کہتے ہیں کہ 5000 قبل مسیح میں بھی یروشلم میں انسانی آبادی کے آثار ملے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ دنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ تاریخ کی کتب میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام کا ذکر ملتا ہے جنہوں نے بیت المقدس کی طرف ہجرت کی تھی۔ پھر حضرت یعقوب علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق مسجد بیت المقدس (مسجد اقصیٰ) کی بنیاد رکھی۔ 1000 قبل مسیح میں حضرت داؤد علیہ السلام نے شہر کو فتح کر کے اپنی حکومت کا دارلخلافہ بنا لیا۔ جبکہ 960 قبل مسیح میں حضرت داؤد علیہ السلام کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام نے ہیکل سلیمانی تعمیر کرایا۔ 589 قبل مسیح میں شاہ بابل ( قدیم عراق) بخت نصر نے بیت المقدس شہر کو مسمار کر کے یہودیوں کو ذلت آمیز طریقے سے بے دخل کر دیا۔ وہ ایک لاکھ یہودیوں کو غلام بنا کر اپنے ساتھ عراق لے گیا ۔ طویل عرصے تک یرو شلم ویرانی کی تصویر بنا رہا ۔

ایک سو سال بعد بیت المقدس ایک پر رونق شہر بن چکا تھا۔ 539 قبل مسیح میں بخت نصر کے بعد فارس کے شہنشاہ روش کبیر (سائرس اعظم) نے بابل پر تابڑ توڑ حملوں کے بعد بابل اور یروشلم پر قبضہ کر لیا۔ اس نے یہودیوں کو واپس آنے کی اجازت دے دی۔ ہیرود اعظم کے زمانے میں یہودیوں نے بیت المقدس اور ہیکل سلیمانی دوبارہ تعمیر کر لیا۔ لیکن 70 عیسوی میں رومی جنرل ٹا ئٹس نے ہیکل سلیمانی کو مسمار اور شہر یروشلم کو تباہ و برباد کر دیا۔ چوتھی صدی عیسوی میں رومیوں نے مسیحیت قبول کر لی اور بیت المقدس میں گرجا گھر تعمیر کرا نا شروع کر دئیے۔ جب نبی کریم ﷺ معراج پر تشریف لے گئے تو 2 ہجری بمطابق 624 عیسوی تک بیت المقدس پر مسلمانوں ہی کا قبضہ تھا۔ حکم الہٰی سے کعبہ (مکہ) کو قبلہ قرار دیا گیا۔ 639 عیسوی میں عہد فاروقی میں عیسائیوں سے ایک معاہدے کے تحت بیت المقدس پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا۔ 691 عیسوی میں اموی حکمران نے قبۃ الصخرا (ڈوم آف دا راک ) تعمیر کرایا۔ 1099 عیسوی میں پہلی صلیبی جنگ میں صلیبیوں نے بیت المقدس پرقبضہ کر لیا جس میں 70 ہزار کے لگ بھگ مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا ۔

سنہ 1187 میں صلاح الدین ایوبی نے صلیبیوں کو شکست دے کر شہر سے نکال دیا۔ 1229 میں فریڈرک دوم نے دوبارہ مسلمانوں سے یرو شلم حاصل کر لیا۔ لیکن تھوڑے ہی عرصے بعد 1244 عیسوی میں مسلمان دوبارہ یروشلم کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ۔ 1517عیسوی میں سلطان سلیم اول نے یروشلم کو عثمانی سلطنت کا حصہ بنا ڈالا۔ مسیحی اپنی شکست کو بھول نہ سکے تھے لہٰذا 1917 میں انگریز جنرل ایلن بی عثمانیوں کو شکست دینے میں کامیاب ہو گیا۔ جس کے بعد انگریز فوجوں نے شہر کا قبضہ حاصل کر لیا۔ تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ باب الخلیل کے راستے شہر میں داخل ہوتے وقت یروشلم کے تقدس کا احترام کرتے ہوئے وہ پیدل شہر میں داخل ہوا۔1947 ء میں اقوام متحدہ نے یروشلم اور فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ، مشرقی حصہ فلسطینیوں اور مغربی حصہ یہودیوں کے حوالے کر دیا گیا۔ پھر دو عشروں تک یروشلم کا مشرقی حصہ اردن کے اقتدار میں رہا لیکن 1967 ء کی جنگ میں اسرائیل نے اس پر قبضہ کر لیا۔ بین الاقوامی برادری نے آج تک یہ قبضہ جائز تسلیم نہیں کیا۔ اس مقدس شہر یروشلم نے بھی کیا قسمت پائی ہے۔ یہ بار بار تخت و تاراج ہوا، آبادیاں بار بار زبردستی جلا وطن ہوتی رہیں، اس کی گلیاں ان گنت مرتبہ میدان جنگ بنیں اور خون کے ندیوں کا منظر پیش کرتی رہیں ۔

خاور نیازی

بشکریہ دنیا نیوز

عظیم منگول قبیلے کا سردار قبلائی خان طاقتور حکمران کیسے بنا ؟

یہ 1227 عیسوی کا ذکر ہے جب عظیم منگول قبیلے کا سردار تیموجن (دنیا اسے چنگیز خان اور خاقان اعظم کے نام سے بھی جانتی ہے ) جب اپنی زندگی کی آخری جنگ لڑتے ہوئے گھوڑے سے گر کر صاحب فراش ہوا ، یہ اس کی زندگی کا خلاف توقع واقعہ تھا ۔ شاہی خیمے میں بیٹے، پوتے، مشیر ، وزیر اور معتمد خاص سر جھکائے پریشان ، گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے تھے، خود تیموجن سردار ایک ایک درباری کا خاموشی مگر پھٹی پھٹی نظروں سے جائزہ لے رہا تھا ۔ سردار لاکھوں افراد کی زندگیوں کے فیصلے کیا کرتا تھا، وہ خود کو موت پر بھی حاوی سمجھ بیٹھا تھا۔ اس پر ہی کیا موقوف ، رعایا کو بھی یقین تھا کہ موت سردار کے قریب بھی نہیں آ سکتی۔ اب اسکی پھٹی پھٹی نگاہیں پیغام دے رہی تھیں کہ وہ قانون قدرت کا ادراک کر چکا ہے ۔

یہ وہی سردار تھا جس کے جرنیل دیکھتے ہی دیکھتے، چند عشروں میں خون کی ہولی کھیلتے، کھوپڑیوں کے مینار بناتے تھے۔ ہنستے بستے شہروں اور دیہات کو ویران کر کے بیجنگ سے ماسکو تک اپنا جھنڈا گاڑ کر دنیا کی سب سے وسیع سلطنت کے حکمران بن چکے تھے ، یہ سلطنت تین کروڑ مربع کلو میٹر پر محیط تھی۔ منگول سلطنت ایشیاء اور یورپ کے بڑے علاقوں پر مشتمل تھی۔ وسعت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ آج ان علاقوں کی کل آبادی تین ارب نفوس پر مشتمل ہے ۔ یقینا سردار لیٹا سوچ رہا ہو گا کہ کہاں کروڑوں پر میل پھیلی ہوئی سلطنت اور کہاں یہ چند گز پرمشتمل جنگی خیمہ۔ جس میں سردار کے چاروں بیٹے ، گیارہ پوتے ، وزراء اور مشیران بھی دم سادھے کھڑے تھے ۔ سردار نے اچانک گیارہ سالہ بچے پر اپنی نظریں جما لیں اور اگلے ہی لمحے اس مرد شناس سردار نے انگلی کے اشارے سے بچے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ”میرا یہ پوتا مجھ سے کہیں بڑی سلطنت کا مالک ہو گا اور مجھ سے کہیں زیادہ بڑی عمر پائے گا‘‘۔ اپنے پوتے قبلائی خان کے بارے پیش گوئی کرنے والے منگول سردار چنگیز خان کی وفات کے تیس سال بعد پیش گوئی سچ ثابت ہوئی اور قبلائی خان اپنے دادا سے بھی بڑی سلطنت کا حکمران بنا۔

قبلائی خان چنگیز خان کے سب سے چھوٹے بیٹے تولوئی خان کا بیٹا تھا جیسے تولوئی خان اپنے باپ کا سب سے لاڈلہ بیٹا تھا عین اسی طرح قبلائی خان بھی اپنے باپ کا لاڈلہ بیٹا تھا۔ قبلائی خان 1215ء میں چین کے صوبے گنسو کے شہر ینگی میں بدھ مت کے پروکاروں کی عبادت گاہ ڈافو میں پیدا ہوا ۔ بچپن ہی سے چنگیز خان قبلائی خان کی رائے کو مقدم جانتا تھا۔ اور ہمیشہ اپنے وزیروں کو کہتا تھا کہ میری عدم موجودگی میں سلطنت کے معاملات قبلائی خان دیکھا کرے گا۔ چنگیز خان ، قبلائی خان کی ہر بات کو غور سے سنتا تھا۔ وہ انتہائی زیرک اور باشعور تھا۔سیاسیات ، فلسفہ، معاشرتی علوم کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کی متعدد زبانوں پر اسے عبور حاصل تھا۔ 1251 ء میں چنگیز خان کی وصیت کو پس پشت ڈالتے ہوئے قبلائی خان کے بھائی مونکے خان کو منگول سلطنت کا سردار بنا دیا گیا ۔ انہوں نے قبلائی خان کو جنوبی چین کا گورنر مقرر کرتے ہوئے اسے ڈالی سلطنت کو فتح کرنے کی ذمہ داری سونپ دی ۔ قبلائی خان کے جنگی اور قائدانہ سفر کی یہیں سے شروعات ہوئیں۔ اس نے تھوڑے ہی عرصہ میں جنوبی چین کو فتح کر ڈالا۔ اس نے اپنا دارالحکومت چینی شہر شانگ ٹو میں قائم کر لیا ۔ جنوبی چین میں اس نے شاندار قیام گاہیں، شکار گاہیں اور محلات تعمیر کرائے ۔

مونکے خان اپنے دادا چنگیز خان کی طرح انتہائی سفاک اور ظالم حکمران تھا ۔ اس کے دور میں سقوط بغداد کا سانحہ رونما ہوا جس میں آخری عباسی خلیفہ کو قتل کر دیا گیا، ایک اندازے کے مطابق اس نے آٹھ لاکھ افراد قتل کئے۔ لیکن 1259ء میں ہوچو کے مقام پر ایک جنگ میں مونکے خان مارا گیا اور یوں قبلائی خان خاقان اعظم مقرر ہوا۔ 1261ء میں اپنے بھائی اریک بوک کو شکست دے کر وہ خود منگول سلطنت کا بادشاہ بن گیا۔ اس کا بھائی اریک بوک فرار ہو کر در بدر پھرتا رہا۔ آخر کار 1266ء میں قبلائی خان کے ہاتھوں مارا گیا ۔ اگرچہ چنگیز خان نے اپنی زندگی میں چین کے بھی بہت سارے علاقے فتح کر لئے تھے لیکن باوجود خواہش کے چین کا مکمل کنٹرول حاصل کرنے میں وہ کبھی کامیاب نہ ہو سکا ۔ چنانچہ اس کا یہ خواب پوتے قبلائی خان نے پورا کر دکھایا۔ اس نے نہ صرف پورے چین پر قبضہ حاصل کر لیا تھا بلکہ وہاں ایک نئی بادشاہت کی بنیاد بھی رکھی جسے تاریخ ”یو آن ‘‘کے نام سے جانتی ہے۔ قبلائی خان کی سلطنت اتنی وسیع تھی کہ اس کا احاطہ کرنا مشکل تھا۔ اس نے ہر ناممکن کام کو ممکن بنایا۔

چین اور اردگرد کے علاقوں پر مشتمل قبلائی حکومت مختلف تہذیبوں کا مرقع تھی ، علاوہ ازیں علوم و فنون کے نابغہ روزگار افراد کے منگول سلطنت میں جمع ہو جانے کی وجہ سے منگول بھی اپنی فطرت اور روایات تبدیل ہونے پر مجبور ہو گئے۔ قبلائی خان اپنے دادا، باپ اور بھائیوں کی شہرت کو ناپسند کرتا تھا اس لئے اس نے قدیم منگول روایات کی حوصلہ شکنی کر کے بہت جلد اپنی مرضی کی باتیں مسلط کر دیں۔ معروف سیاح مارکو پولو قبلائی خان کے دربار میں لگ بھگ بیس سال تک ملازمت کرتا رہا ۔ مارکو پولو نے قبلائی خان کی ذاتی زندگی بارے دلچسپ باتیں تحریر کی ہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ قبلائی خان کی چار بیویاں اور کثیر تعداد میں باندیاں بھی تھیں۔ مارکو پولو کہتا ہے کہ قبلائی خان نے ایک ایسا محل بھی تعمیر کرایا تھا جس کے گرد 25 کلومیٹر لمبی دیوار بنائی گئی تھی ۔ اس محل میں بیک وقت ایک ہزار گھوڑے داخل ہو سکتے تھے ۔

محل کے میں ہال میں 16 ہزار نشستوں کی گنجائش تھی۔ اس ہال سونے چاندی اور قیمتی ریشمی کپڑے سے مزین کرسیاں رکھی گئی تھیں۔ شانگ ٹو میں قبلائی خان کے محل اور اس کے گرد و نواح کو دنیا کے کونے کونے سے لائے گئے قیمتی ، نایاب اور خوبصورت درختوں اور پودوں پر مشتمل باغات سے سجایا گیا تھا۔ آگے چل کر مارکو پولو لکھتا ہے کہ خاقان کی موجودگی میں دربار شاہی سے آدھے میل تک کسی قسم کے شور وغل یا اونچی آواز میں بولنے کی اجازت نہ تھی۔ دربار میں حاضر ہونے کے لئے ہر شخص کو سفید چمڑے کے جوتے پہننا پڑتے تھے تاکہ سونے چاندی کی تاروں سے مزین قیمتی قالین خراب نہ ہوں۔ 1294 میں تقریباََ 80 سال کی عمر میں قبلائی خان زندگی کی بازی ہار گیا منگول روایات کے مطابق اس کی چاروں بیویوں اور خادماؤں کو زندہ دفن کیا گیا، اس وہم کے ساتھ کہ وہ اس کی آئندہ کی زندگی میں خدمت کریں گی۔ اس کی وفات کے بعد سلطنت کا شیرازہ بکھرتا چلا گیا۔

خاور نیازی

بشکریہ دنیا نیوز

بخت نصر ۔۔۔۔ بابل کا ظالم بادشاہ

بخت نصر ( 605 قبل مسیح سے 562 قبل مسیح تک ) اپنے زمانے کا سفاک ترین اور ظالم بادشاہ تھا، اکثر مورخین کہتے ہیں کہ اس کے دماغ میں ہر لمحہ ” فتح کر لو‘‘ کا بھوت سمائے رہتا تھا۔ جنگ جو تو تھا ہی ہر لمحہ کچھ کر گزرنے کا بھوت بھی اس کے سرپر سوار رہتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ بلا کا ذہین اور اعتماد کی دولت سے مالا مال تھا۔ اسے بنو کد نصر کے نام سے بھی یاد کیا جاتا تھا۔ ملک بابل کا بادشاہ تھا ۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ بابل موجودہ عراق کے قدیم نام ”میسو پو ٹیمیا ‘‘ کا ایک قدیم شہر تھا ۔”میسوپوٹیمیا‘‘ قدیم تہذیب کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ بابل کلدانی سلطنت کا دارلحکومت تھا جو موجودہ بغداد سے لگ بھگ 65 کلومیٹر کی مسافت پر دریائے فرات کے کنارے آباد تھا۔ 1750 قبل مسیح میں ”بابی لونیا ‘‘ کے بادشاہ حمو رابی نے اسے دارالسلطنت بنایا تو یہ دنیا کا خوبصورت ترین شہر بن گیا ۔ 4000 سال قبل مسیح کی تحریروں میں بھی اس شہر کا ذکر ملتا ہے۔ 689 قبل مسیح میں بادشاہ بنو کد نصر یا بخت نصر نے اسے دوبارہ تعمیر کرایا، پرانا شہر دریائے فرات کے کنارے چونکہ آباد تھا، بخت نصر نے دریا پر پل بنوایا ، اور مغربی کنارے کا ایک وسیع علاقہ بھی شہر کی حدود میں شامل کر لیا۔ اس کے عہد میں شہر کی آبادی 5 لاکھ نفوس پر مشتمل تھی۔

بخت نصر کا باپ ”نبو لاسر‘‘ بھی بابل کا بادشاہ تھا۔ باپ نے صلاحیتوں کو بھانپتے ہوئے اسے مصر پر حملے کے لئے بھیجا۔ اس نے زمانہ شہزادگی میں ہی مصر فتح کر ڈالا۔ اپنے باپ نبو لاسر کی وفات کے بعد یہ تخت نشیں ہوا۔ اس کے عہد سلطنت میں زیادہ تر دولت بابل کی قلعہ بندی اور تعمیرات پر خرچ ہوتی رہی، اس کا محل عجوبہ تھا۔ اس کے تعمیر کردہ ”معلق باغات‘‘ دنیا کے سات قدیم عجائبات میں دوسرے نمبر پر شمار ہوتے ہیں ۔ ایک روایت کے مطابق اس نے یہ باغات اپنی ملکہ شاہ بانو (ایرانی) کی خوشی کی خاطر تعمیر کروائے تھے کیونکہ وہ ہر وقت اپنے ملک کی سرسبز و شاداب وادیوں کو یاد کرتی رہتی تھی، 80 فٹ بلند یہ باغات معلق نہ تھے بلکہ ایسی جگہ لگائے گئے تھے جو درجہ بدرجہ بلند ہوتی ہوئی 350 فٹ تک پہنچ گئی تھی۔ ان باغات کے علاوہ بنو نصر کے زمانے میں بابل علم وادب اور تہذیب و تمدن کا بڑا مرکز بھی مانا جاتا تھا۔

یہ چھٹی صدی قبل مسیح کی بات ہے ، بنی اسرائیل کی سرکشی ، نافرمانیاں اور مشرکانہ حرکتیں حد سے تجاوز کر چکی تھیں ۔ ہر طرف ظلم و جبر ، فساد اور لوٹ مار کا بازار گرم تھا۔ تو قوم عمالقہ کا یہ ظالم بادشاہ بابل سے ایک بہت بڑی فوج کے ساتھ آندھی وطوفان کی مانند راستے میں آنے والی تمام حکومتوں کو پامال کرتا ہوا فلسطین پہنچ گیا ۔ تھوڑے ہی عرصے میں اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ چالیس ہزار سے زائد علماء کو قتل کر دیا یہاں تک کہ وہاں ایک عالم بھی زندہ نہ بچا۔ بخت نصر بنی اسرائیل کے اسی ہزار افراد کو قیدی بنا کر بابل لے گیا۔ بخت نصر کی فوج نے بیت المقدس میں عظیم الشان محلات کو کھنڈرات میں بدل دیا۔ ہیکل سلیمانی میں موجود وسیع وعریض نادر نایاب کتب سے مزین کتب خانہ جلا کر راکھ کر دیا جن میں دوسرے مذاہب کے اصلی نسخے بھی شامل تھے۔ قدرت کسی قوم پر اپنا قہر اور عذاب ایک دم سے نازل نہیں فرماتی بلکہ انہیں پہلے سدھرنے کے پورے پورے مواقع فراہم کرتی ہے ، پھر اسے جھنجوڑتی ہے اور سبق سکھاتی ہے ۔ تفسیر فاران میں ہے کہ جب یہودیوں نے فساد شر انگیزی اور اللہ کے احکامات سے روگردانی کی تو اللہ عزو جل نے کسی ایسے شخص کو ان پر مسلط کر دیا جس نے ان کو ہلاکت اور بربادی سے دو چار کر دیا۔

پہلے جب انہوں نے فتنہ فساد کیا اور توریت کے احکامات کو رد کیا تو بخت نصر کو انکی طرف بھیجا جس نے انکو تہس نہس کر دیا۔ کچھ عرصہ بعد جب دوبارہ انہوں نے سر اٹھایا تو طیطوس رومی نے انکی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ پھر کچھ عرصہ بعد جب دوبارہ انہوں نے شرانگیزی شروع کی تو فارسی مجوسیوں نے ان کا حشر نشر کر دیا۔ اس طرح 515 قبل مسیح میں بیت المقدس دوبارہ آباد ہوا ۔ بنی اسرائیل نے حضرت عزیر السلام کی موجودگی میں رو رو کر توبہ کی اور آئندہ خدا کے احکام کے مطابق زندگی گزارنے کا عہد کیا۔ لیکن یہ زندگی بنی اسرائیل کو پھر راس نہ آئی ۔ فارغ البالی نصیب ہوئی تو ایک دوسرے سے اختلاف اور جھگڑے پھر معمول کا مشغلہ بن گئے۔ یہاں تک کہ رفتہ رفتہ بنی اسرائیل پھر اسی حالت کو پہنچ گئے جس میں ان پر بخت نصر کی شکل میں عذاب نازل ہوا تھا۔

خاور نیازی

بشکریہ دنیا نیوز

فلارنس نائٹ انگیل

یہ خاتون 12 مئی 1820ء کو اٹلی کے شہر فلارنس میں پیدا ہوئی، لیکن اس کا بچپن زیادہ تر انگلستان میں بسر ہوا۔ اس کی نیک ماں نے اسے خدمتِ خلق میں زندگی بسر کرنے کا مشورہ دیا۔ چنانچہ اُس نے لندن، ایڈنبرا اور یورپ کے بعض ہسپتالوں کا گھوم پھر کر معائنہ کیا اور پیرس اور کائزرز ورتھ کے اداروں میں نرسنگ کی تربیت بھی حاصل کی۔ 1858ء تک اُسے اتنی شہرت حاصل ہو چکی تھی کہ وہ لندن میں مریض خواتین کے ہسپتال کی سپرنٹنڈنٹ مقرر کر دی گئی، لیکن جنگِ کریمیا میں اُس نے وہ کام کیا کہ دنیا بھر میں مشہور ہو گئی۔

اِس جنگ کے آغاز میں جب معلوم ہوا کہ زخمی سپاہیوں کی دیکھ بھال ٹھیک طور سے نہیں ہو رہی ہے تو مِس نائٹ انگیل نے وزیرِ جنگ کو جو بچپن کے زمانے سے اُس کے دوست تھے، اپنی خدمات پیش کیں اور اڑتیس دوسری نرسوں کو ساتھ لے کر کریمیا روانہ ہو گئی۔ اس کا کام یہ تھا کہ تمام فوجی ہسپتالوں کی نگرانی کرے، نرسوں کے پورے عملے سے کام لے اور دس ہزار مریض اور زخمی انسانوں کی دیکھ بھال کرے۔ وہ چوبیس گھنٹے کام میں مصروف رہتی، ہسپتالوں اور بارکوں کو صاف کراتی، مریضوں کے بستروں پر خود چکر لگاتی اور جتنا وقت ملتا اس کوآپریشن کے کمروں میں مجروح انسانوں کی تسکین و تسلی میں صرف کرتی۔

فروری اور جون 1855ء کے درمیان اُس کی ان تھک کوششوں کے باعث شرح اموات 42 فیصد سے گھٹتے گھٹتے صرف دو فیصد رہ گئی۔ اگرچہ خود بخار میں مبتلا ہو گئی، لیکن اپنے کام میں برابر مصروف رہی تاآنکہ انگریزوں نے جولائی 1856ء میں ترکی کو خالی کر دیا۔ اس وقت تک اس کے عظیم والشان کام کی اتنی شہرت ہو چکی تھی کہ حکومت برطانیہ نے اس کو وطن واپس لانے کے لیے خاص طور پر ایک جنگی جہاز بھیجا۔ مِس نائٹ انگیل کی خدمات کے اعتراف کے طور پر پچاس ہزار پاؤنڈ کا ایک فنڈ جمع کیا گیا، جس سے اُس نے سینٹ ٹامس ہسپتال میں ایک دارالتربیت قائم کیا جس کا نام تھا، نائٹ انگیل نرسز ٹریننگ ہوم۔ اِس کے علاوہ بعض دوسرے مقامات پر بھی نئے انداز کے نرسنگ سکول کھولے گئے۔ مِس فلارنس نائٹ انگیل کا انتقال لندن میں 13 اگست 1910ء کو ہوا۔ اس نے نوے سال کی عمر پائی۔

راشد علی اکبر

نوشیروان عادل

چھٹی صدی عیسوی میں قباد کا بیٹا خسرو اول شہنشاہ بنا۔ ساسانیوں میں یہ سب سے مشہور بادشاہ ہے اور عام طور پر نوشیروان عادل کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ساسانیوں کی رومیوں کے ساتھ ایک بار جنگ ہوئی لیکن اس کے خاتمے کے چند برس بعد پھر لڑائی شروع ہو گئی، اس لیے کہ نوشیروان کو قیصر روم جسٹینین کی فتوحات سے تشویش پیدا ہو چکی تھی۔ روم کے ساتھ یہ دوسری مرتبہ جو لڑائی شروع ہوئی وہ طویل عرصہ جاری رہی۔ صلح ہوئی جس میں: لازی (موجودہ جارجیا) کا علاقہ روم کے حوالے کر دیا گیا۔ روم نے منظور کر لیا کہ وہ ہر سال مخصوص رقم ادا کرے گا۔ تجارت کی غرض سے خاص راستے اور خاص منڈیاں مقرر کر دی گئیں۔ یہ طے ہو گیا کہ کسی معاملے کے متعلق اختلاف ہو گا تو ثالثوں کے ذریعے سے فیصلہ کرا لیا جائے گا اور دونوں حکومتوں کے درمیان سفارتی تعلقات قائم رہیں گے۔

قفقاز کے دروں کی حفاظت ایرانیوں کے ذمے لگ گئی۔ یہ صلح طویل عرصہ کے لیے ہوئی تھی لیکن پائیدار ثابت نہ ہوئی۔ نوشیروان نے اپنی سلطنت کو انتظامی لحاظ سے چار بڑے حصوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ مشرقی حصہ خراسان و کرمان، مغربی حصہ عراق اور دوآبہ دجلہ و فرات، شمالی حصہ آرمینیا اور آذربائیجان، جنوبی حصہ فارس اور خوزستان۔ پیداوار کے مطابق جنسیں وصول کی جاتی تھیں۔ نوشیروان نے زمین کے لیے مستقل لگان مقرر کر دیا۔ آب یاری اور نقل و حمل کے انتظامات بہتر کیے گئے۔ فوج کی اصلاح کی گئی۔ اجنبی سیاحوں اور تاجروں کی حفاظت کی جاتی تھی۔ مسیحیوں کے ساتھ رواداری کا برتاؤ ہوتا تھا۔ علم و فضل کی سرپرستی شروع ہو گئی۔ اسی زمانے میں برصغیر سے شطرنج اور حکیمانہ کہانیاں ایران پہنچیں۔

ولیم ایل لینگر