معرکۂ عین جالوت کا فاتح رکن الدین بیبرس جس سے منگول بھی ڈرتے تھے

آج ہم آپ کو ایک ایسے غلام کی کہانی سنائیں گے جو سلطانوں کی طرح مشہور ہوا اور جس نے اپنی بہادری سے نہ صرف حکومت حاصل کی بلکہ کئی ظالموں کو منطقی انجام تک پہنچایا فتوحات کی ایسی مثالیں قائم کیں کہ بڑے بڑے جنگجو اس کے نام سے تھر تھر کانپتے تھے، تاریخ منگولوں کے ظلم سے بھری پڑی ہے لیکن اس ”غلام ‘‘ نے منگولوں کی ایسی کمر توڑی کہ وہ دوبارہ سر نہ اٹھا سکے۔ یہ غلام ایک عظیم فاتح، دلیر جنگجو اور عالم اسلام کا ایسا ہیرو بنا جس کو تاریخ کبھی بھلا نہ پائے گی۔ جی ہاں ! ہم بات کر رہے ہیں سلطان رکن الدین بیبرس کی جو 19 جولائی 1223ء کو دشتِ قپچاق میں ایک خانہ بدوش قبیلے میں پیدا ہوئے، قپچاق ترک عہد وسطیٰ میں یورپ و ایشیا ء کے درمیانی علاقے میں آباد تھے بیبرس ہلاکو خان اور غیاث الدین بلبن کا ہم عصر تھا اور کہا جاتا ہے کہ بیبرس کو غلام بنا کر فروخت کیا گیا تھا پھر وہ اپنے زورِ بازو سے سلطانِ مصر و شام بنا۔

الملک الظاہر رکن الدین بیبرس کا اصل نام البند قداری، لقب ابولفتوح تھا لیکن بیبرس کے نام سے شہرت پائی ۔ بیبرس سیف الدین قطز کا جانشین اور مصری افواج کے ان کمانڈروں میں سے ایک تھا جس نے فرانس کے بادشاہ لوئس نہم کو ساتویں صلیبی جنگ میں شکست دی۔ رکن الدین بیبرس (620ھ-676ھ) کے 3 کارنامے تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ پہلا کارنامہ یہ تھا کہ بیبرس نے سلطان سیف الدین قطز کے ساتھ مل کر منگولوں کو معرکۂ عین جالوت میں عبرتناک شکست دی۔ یہ مشہور جنگ 25 رمضان 658ھ کو لڑی گئی، اس جنگ میں منگولوں کا وہ حال کیا کہ اسکے بعد وہ دوبارہ سر اٹھانے کے قابل نہ رہے اس طرح حجازِ مقدس اور مصر منگولوں کے ظلم سے ہمیشہ کیلئے محفوظ ہو گئے۔ عین جالوت (فلسطین میں) وہی جگہ ہے جہاں طالوت کے مختصر لشکر نے جالوت کے لشکرِ جرار کو شکست دی تھی۔

یہ سلطان رکن الدین بیبرس کا دوسرا شاندار کارنامہ نہیں تو اور کیا ہے کہ اس نے تقریبا ًپونے دو صدی تک چلی صلیبی جنگوں کا خاتمہ کیا اور صلیبیوں کو ایسی عبرتناک شکست دی کہ پھر وہ دوبارہ حملہ کرنے کے قابل نہ رہے۔ بیبرس کا تیسرا کارنامہ یہ تھا کہ 659ھ میں مصر میں رسمی سہی مگر خلافتِ عباسی دوبارہ قائم کی جبکہ مغلوں نے بغداد کو تہس نہس کر کے خلافتِ عباسی کا بالکل خاتمہ کر دیا تھا۔ بغداد کو تباہ کرنے کے بعد جب ہلاکو خان کی فوجیں شام کی طرف بڑھیں تو بیبرس اور ایک مملوک سردار سیف الدین قطز نے مل کر عین جالوت کے مقام پر ان کو فیصلہ کن شکست دی اور منگول افواج کو نکال باہر کیا۔ بیبرس کا یہ بہت بڑا کارنامہ ہے کہ اس نے مصر و شام کو منگولوں کی تباہ کاریوں سے بچایا۔ اس نے مصری سلطنت کی شمالی سرحد ایشیائے کوچک کے وسطی علاقوں تک پہنچا دی۔ بیبرس کا ایک اور بڑا کارنامہ شام کے ساحل پر قابض یورپی حکومتوں کا زور توڑنا تھا۔

یہ حکومتیں پہلی صلیبی جنگ کے زمانے سے شام کے ساحلی شہروں پر قابض تھیں۔ نور الدین زنگی اور صلاح الدین ایوبی نے اگرچہ اندرون ملک اور فلسطین سے صلیبیوں کو نکال دیا تھا لیکن ساحلی شہروں پر ان کا اقتدار عرصے تک قائم رہا۔ ان کو بحری راستے سے یورپ سے معاونت میسر رہتی تھی۔ بیبرس نے عین جالوت میں منگولوں کے ساتھ اتحاد کرنے کی کوشش کرنے پر 1268ء میں مسیحی سلطنت انطاکیہ کا خاتمہ کیا۔ انطاکیہ کی سلطنت کا خاتمہ 1271ء میں نویں صلیبی جنگ کا باعث بنا جس کی قیادت انگلستان کے شاہ ایڈورڈ نے کی مگر وہ بیبرس سے کوئی بھی علاقہ چھیننے میں ناکام رہا۔ بیبرس نے اپنی سلطنت کو جنوب میں سوڈان کی طرف بھی وسعت دی۔ اپنی ان فتوحات اور کارناموں کی وجہ سے بیبرس کا نام مصر و شام میں صلاح الدین ایوبی کی طرح مشہور ہوا۔

بیبرس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بھیس بدلنے کا شوقین تھا۔ کبھی وہ گداگر کا روپ دھارتا اور کبھی مہمان بن کر دسترخوان پر اکیلا مزے اڑاتا دکھائی دیتا، بلا کا حاضر دماغ تھا۔ فطری طور پر جنگجو تھا اسکی عسکری صلاحیتیں دشت و صحرا میں پروان چڑھیں۔ اسے دمشق میں تقریباً 500 روپے میں فروخت کیا گیا وہ بحری مملوکوں کے جتھوں میں بطور تیر انداز شامل ہوا اور بالآخر انکا سردار بن گیا۔ وہ اکیلا خاقان اعظم کی یلغار کے سامنے حائل ہوا اور منگولوں کو تہس نہس کر دیا اسکے جوابی حملے نے فرانسیسی بہادروں کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی بلا کا خوش طبع انسان تھا گھوڑے پر سوار ہو کر اکیلا نکل جاتا تو دوسرے دن فلسطین میں نمودار ہوتا اور چوتھے دن صحرائے عرب میں ملتا ۔ بڑا حوصلہ مند تھا ایک ایک دن میں میلوں کی مسافت طے کر لیتا۔

جب سلطان بنا تو اس کے مشیروں اور وزیروں کو بھی اسکے عزائم کا علم نہ ہوتا ہر شخص کو یہی خیال رہتا ممکن ہے سلطان اسکے قریب بیٹھا اسکی باتیں سن رہا ہو ، لوگ اسکے کارنامے سن کر خوش ہوتے لیکن اسکے تقرب سے گھبراتے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک دن بیبرس نے ایک تاتاری سپاہی کا بھیس بدلا اور تن تنہا شمال کی طرف غائب ہو گیا کئی دن سفر کرنے کے بعد وہ تاتاریوں کے علاقے میں داخل ہوا اور جگہ جگہ گھوم پھر کر حالات کا جائزہ لینے لگا ۔ انگریز مصنف ہیر لڈیم اس کے بارے میں لکھتا ہے کہ مختلف زبانوں میں مہارت رکھنے کی وجہ سے وہ ہر قسم کے لوگوں میں گھل مل جاتا اسلئے اس پر کسی کو شبہ نہ ہوا ایک دن اس نے تاتاری علاقے کے کسی نانبائی کی دکان پر کھانا کھایا اور ایک برتن میں اپنی شاہی انگھوٹی اتار کر رکھ دی پھر اپنے علاقے میں واپس آگیا اور وہاں سے تاتاری فرمانروا کو خط لکھا۔

”میں تمہاری مملکت کے حالات کا معائنہ کرنے کیلئے فلاں جگہ گیا تھا نانبائی کی دکان پر انگھوٹی بھول آیا ہوں مہربانی فرما کر وہ انگھوٹی مجھے بھجوا دو کیونکہ وہ مجھے بہت پسند ہے۔‘‘ قاہرہ کے بازاروں میں لوگ یہ قصہ سن کر قہقہے لگاتے تھے۔ ایک دفعہ سلطان بیبرس عیسائی زائر کا بھیس بدل کر صلیبیوں کے مقبوضہ علاقوں میں داخل ہوا اور کئی ہفتوں تک انکے فوجی انتظامات کا جائزہ لیتا رہا کہا جاتا ہے کہ وہ تقریباً 20 ایسے قلعوں کو دیکھنے میں کامیاب ہوا جو عیسائیوں کی قوت کا مرکز تھے ایک دن اس نے قاصد کا بھیس بدلا اور ایک ہرن کا شکار لے کر سیدھا انطاکیہ کے حاکم بوہمنڈ کے دربار جا پہنچا جب بیبرس قلعے سے باہر گیا تو کسی نے آکر بوہمنڈ کا بتایا یہ ایلچی خود سلطان تھا یہ سن کر بوہمنڈ پر لرزاں طاری ہو گیا۔ بیبرس کی بیدار مغزی نے جہاں اسے اپنی عوام کی آنکھوں کا تارا بنا رکھا تھا وہاں دشمنوں کے دل پر ایسی ہیبت طاری کر دی تھی کہ سب اس کا نام سن کر تھراتے تھے۔

تاتاریوں کو انکی عروج میں روکنے والا یہی جنگجو تھا۔ معرکہ عین جالوت کا ہیرو بھی بیبرس کو ہی کہا جاتا ہے ۔ اس کے سامنے جب کوئی ہلاکو خان کے ظلم و جبر کی باتیں کرتا تو بیبرس قہقہہ لگا کر کہتا” وقت آنے دو تاتاریوں کو ہم دکھا دیں گے کہ لڑنا صرف وہ نہیں جانتے۔‘‘ تاتاریوں کے عروج کے دور میں سلطان بیبرس کے دربار میں جب ہلاکو کے ایلچی آئے اور بدتمیزی سے بات کی تو بیبرس نے انکے سر قلم کر کے قاہرہ کے بازاروں میں لٹکا دئیے تاکہ لوگوں کو پتہ چل جائے کہ اب لڑنا ہو گا یا مرنا ہو گا ۔  تاریخ گواہ ہے کہ مصر کے اس بہادر نے تاتاریوں کو پہلے ہی معرکے میں ایسی شکست دی کہ اس کے بعد وہ آگے بڑھنے کی ہمت کھو بیٹھے۔ بیبرس نے یکم جولائی 1277ء کو وفات پائی اور اسے دمشق کے المکتبۃ الظاہریۃ میں دفن کیا گیا ۔

طیبہ بخاری

بشکریہ دنیا نیوز

عظیم منگول قبیلے کا سردار قبلائی خان طاقتور حکمران کیسے بنا ؟

یہ 1227 عیسوی کا ذکر ہے جب عظیم منگول قبیلے کا سردار تیموجن (دنیا اسے چنگیز خان اور خاقان اعظم کے نام سے بھی جانتی ہے ) جب اپنی زندگی کی آخری جنگ لڑتے ہوئے گھوڑے سے گر کر صاحب فراش ہوا ، یہ اس کی زندگی کا خلاف توقع واقعہ تھا ۔ شاہی خیمے میں بیٹے، پوتے، مشیر ، وزیر اور معتمد خاص سر جھکائے پریشان ، گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے تھے، خود تیموجن سردار ایک ایک درباری کا خاموشی مگر پھٹی پھٹی نظروں سے جائزہ لے رہا تھا ۔ سردار لاکھوں افراد کی زندگیوں کے فیصلے کیا کرتا تھا، وہ خود کو موت پر بھی حاوی سمجھ بیٹھا تھا۔ اس پر ہی کیا موقوف ، رعایا کو بھی یقین تھا کہ موت سردار کے قریب بھی نہیں آ سکتی۔ اب اسکی پھٹی پھٹی نگاہیں پیغام دے رہی تھیں کہ وہ قانون قدرت کا ادراک کر چکا ہے ۔

یہ وہی سردار تھا جس کے جرنیل دیکھتے ہی دیکھتے، چند عشروں میں خون کی ہولی کھیلتے، کھوپڑیوں کے مینار بناتے تھے۔ ہنستے بستے شہروں اور دیہات کو ویران کر کے بیجنگ سے ماسکو تک اپنا جھنڈا گاڑ کر دنیا کی سب سے وسیع سلطنت کے حکمران بن چکے تھے ، یہ سلطنت تین کروڑ مربع کلو میٹر پر محیط تھی۔ منگول سلطنت ایشیاء اور یورپ کے بڑے علاقوں پر مشتمل تھی۔ وسعت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ آج ان علاقوں کی کل آبادی تین ارب نفوس پر مشتمل ہے ۔ یقینا سردار لیٹا سوچ رہا ہو گا کہ کہاں کروڑوں پر میل پھیلی ہوئی سلطنت اور کہاں یہ چند گز پرمشتمل جنگی خیمہ۔ جس میں سردار کے چاروں بیٹے ، گیارہ پوتے ، وزراء اور مشیران بھی دم سادھے کھڑے تھے ۔ سردار نے اچانک گیارہ سالہ بچے پر اپنی نظریں جما لیں اور اگلے ہی لمحے اس مرد شناس سردار نے انگلی کے اشارے سے بچے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ”میرا یہ پوتا مجھ سے کہیں بڑی سلطنت کا مالک ہو گا اور مجھ سے کہیں زیادہ بڑی عمر پائے گا‘‘۔ اپنے پوتے قبلائی خان کے بارے پیش گوئی کرنے والے منگول سردار چنگیز خان کی وفات کے تیس سال بعد پیش گوئی سچ ثابت ہوئی اور قبلائی خان اپنے دادا سے بھی بڑی سلطنت کا حکمران بنا۔

قبلائی خان چنگیز خان کے سب سے چھوٹے بیٹے تولوئی خان کا بیٹا تھا جیسے تولوئی خان اپنے باپ کا سب سے لاڈلہ بیٹا تھا عین اسی طرح قبلائی خان بھی اپنے باپ کا لاڈلہ بیٹا تھا۔ قبلائی خان 1215ء میں چین کے صوبے گنسو کے شہر ینگی میں بدھ مت کے پروکاروں کی عبادت گاہ ڈافو میں پیدا ہوا ۔ بچپن ہی سے چنگیز خان قبلائی خان کی رائے کو مقدم جانتا تھا۔ اور ہمیشہ اپنے وزیروں کو کہتا تھا کہ میری عدم موجودگی میں سلطنت کے معاملات قبلائی خان دیکھا کرے گا۔ چنگیز خان ، قبلائی خان کی ہر بات کو غور سے سنتا تھا۔ وہ انتہائی زیرک اور باشعور تھا۔سیاسیات ، فلسفہ، معاشرتی علوم کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کی متعدد زبانوں پر اسے عبور حاصل تھا۔ 1251 ء میں چنگیز خان کی وصیت کو پس پشت ڈالتے ہوئے قبلائی خان کے بھائی مونکے خان کو منگول سلطنت کا سردار بنا دیا گیا ۔ انہوں نے قبلائی خان کو جنوبی چین کا گورنر مقرر کرتے ہوئے اسے ڈالی سلطنت کو فتح کرنے کی ذمہ داری سونپ دی ۔ قبلائی خان کے جنگی اور قائدانہ سفر کی یہیں سے شروعات ہوئیں۔ اس نے تھوڑے ہی عرصہ میں جنوبی چین کو فتح کر ڈالا۔ اس نے اپنا دارالحکومت چینی شہر شانگ ٹو میں قائم کر لیا ۔ جنوبی چین میں اس نے شاندار قیام گاہیں، شکار گاہیں اور محلات تعمیر کرائے ۔

مونکے خان اپنے دادا چنگیز خان کی طرح انتہائی سفاک اور ظالم حکمران تھا ۔ اس کے دور میں سقوط بغداد کا سانحہ رونما ہوا جس میں آخری عباسی خلیفہ کو قتل کر دیا گیا، ایک اندازے کے مطابق اس نے آٹھ لاکھ افراد قتل کئے۔ لیکن 1259ء میں ہوچو کے مقام پر ایک جنگ میں مونکے خان مارا گیا اور یوں قبلائی خان خاقان اعظم مقرر ہوا۔ 1261ء میں اپنے بھائی اریک بوک کو شکست دے کر وہ خود منگول سلطنت کا بادشاہ بن گیا۔ اس کا بھائی اریک بوک فرار ہو کر در بدر پھرتا رہا۔ آخر کار 1266ء میں قبلائی خان کے ہاتھوں مارا گیا ۔ اگرچہ چنگیز خان نے اپنی زندگی میں چین کے بھی بہت سارے علاقے فتح کر لئے تھے لیکن باوجود خواہش کے چین کا مکمل کنٹرول حاصل کرنے میں وہ کبھی کامیاب نہ ہو سکا ۔ چنانچہ اس کا یہ خواب پوتے قبلائی خان نے پورا کر دکھایا۔ اس نے نہ صرف پورے چین پر قبضہ حاصل کر لیا تھا بلکہ وہاں ایک نئی بادشاہت کی بنیاد بھی رکھی جسے تاریخ ”یو آن ‘‘کے نام سے جانتی ہے۔ قبلائی خان کی سلطنت اتنی وسیع تھی کہ اس کا احاطہ کرنا مشکل تھا۔ اس نے ہر ناممکن کام کو ممکن بنایا۔

چین اور اردگرد کے علاقوں پر مشتمل قبلائی حکومت مختلف تہذیبوں کا مرقع تھی ، علاوہ ازیں علوم و فنون کے نابغہ روزگار افراد کے منگول سلطنت میں جمع ہو جانے کی وجہ سے منگول بھی اپنی فطرت اور روایات تبدیل ہونے پر مجبور ہو گئے۔ قبلائی خان اپنے دادا، باپ اور بھائیوں کی شہرت کو ناپسند کرتا تھا اس لئے اس نے قدیم منگول روایات کی حوصلہ شکنی کر کے بہت جلد اپنی مرضی کی باتیں مسلط کر دیں۔ معروف سیاح مارکو پولو قبلائی خان کے دربار میں لگ بھگ بیس سال تک ملازمت کرتا رہا ۔ مارکو پولو نے قبلائی خان کی ذاتی زندگی بارے دلچسپ باتیں تحریر کی ہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ قبلائی خان کی چار بیویاں اور کثیر تعداد میں باندیاں بھی تھیں۔ مارکو پولو کہتا ہے کہ قبلائی خان نے ایک ایسا محل بھی تعمیر کرایا تھا جس کے گرد 25 کلومیٹر لمبی دیوار بنائی گئی تھی ۔ اس محل میں بیک وقت ایک ہزار گھوڑے داخل ہو سکتے تھے ۔

محل کے میں ہال میں 16 ہزار نشستوں کی گنجائش تھی۔ اس ہال سونے چاندی اور قیمتی ریشمی کپڑے سے مزین کرسیاں رکھی گئی تھیں۔ شانگ ٹو میں قبلائی خان کے محل اور اس کے گرد و نواح کو دنیا کے کونے کونے سے لائے گئے قیمتی ، نایاب اور خوبصورت درختوں اور پودوں پر مشتمل باغات سے سجایا گیا تھا۔ آگے چل کر مارکو پولو لکھتا ہے کہ خاقان کی موجودگی میں دربار شاہی سے آدھے میل تک کسی قسم کے شور وغل یا اونچی آواز میں بولنے کی اجازت نہ تھی۔ دربار میں حاضر ہونے کے لئے ہر شخص کو سفید چمڑے کے جوتے پہننا پڑتے تھے تاکہ سونے چاندی کی تاروں سے مزین قیمتی قالین خراب نہ ہوں۔ 1294 میں تقریباََ 80 سال کی عمر میں قبلائی خان زندگی کی بازی ہار گیا منگول روایات کے مطابق اس کی چاروں بیویوں اور خادماؤں کو زندہ دفن کیا گیا، اس وہم کے ساتھ کہ وہ اس کی آئندہ کی زندگی میں خدمت کریں گی۔ اس کی وفات کے بعد سلطنت کا شیرازہ بکھرتا چلا گیا۔

خاور نیازی

بشکریہ دنیا نیوز

بیبرس : منگولوں کی موت بننے والا ایک غلام

بارہویں صدی عیسوی میں چنگیز خان کی قیادت میں صحرائے گوبی کے شمال سے خوں خوار منگول بگولا اٹھا جس نے صرف چند دہائیوں میں ہی دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ منگول لشکروں کے سامنے چین، خوارم، وسط ایشیاء، مشرقی یورپ اور بغداد کی حکومتیں ریت کی دیواریں ثابت ہوئیں، منگول حملے کا مطلب بے دریغ قتل عام اور شہر کے شہر کی مکمل تباہی تھی…..دنیا تسلیم کر چکی تھی کہ ان وحشیوں سے مقابلہ ناممکن ہے، منگول نا قابل شکست ہیں، انہوں نے اول خوارزم کی اینٹ سے اینٹ بجائی اور پھر پانچ سو سال سے زائد قائم خلافت عباسیہ کو انجام سے دوچار کیا، انہوں نے خوارزم میں کھوپڑیوں کے مینار بنائے تو بغداد میں اتنا خون بہایا کہ گلیوں میں کیچڑ اور تعفن کی وجہ سے عرصے تک چلنا ممکن نہ رہا۔ اس پرآشوب دور میں مسلمانوں کی حیثیت کٹی پتنگ کی سی تھی، مسلمان نفسیاتی طور پر کسی مقابلے کے قابل نظر نہ آتے تھے. ایسے میں مصر میں قائم مملوک سلطنت ایک مدھم سی امید کی لو تھی وہی سلطنت جس کی بھاگ دوڑ غلام اور غلام زادوں کے ہاتھ میں تھی ”منگول۔ یوروپی ایکسز‘‘ کا اگلا ہدف بھی یہی مسلم ریاست تھی۔

وہ آخری ریاست جس کی شکست مسلمانوں کے سیاسی وجود میں آخری کیل ثابت ہوتی، مملوک بھی اس خوفناک خطرے کا پورا ادراک رکھتے تھے، وہ جانتے تھے آج نہیں تو کل یہ معرکہ ہو کر رہے گا۔ اور یہ معرکہ ہوا۔ سن تھا ستمبر 1260ء کا، اور میدان تھا ”عین جالوت‘‘! منگول مسلم سیاسی وجود کو ختم کرنے سر پر آن پہنچ چکے تھے، کسی طوفان کی طرح ، جو بڑی بڑی سلطنتوں کوخس و خاشاک کی طرح بہا کر لے گئے تھے آج ان کے مد مقابل مملوک تھے جسکی قیادت رکن الدین بیبرس کر رہا تھا، وہی بیبرس جو کبھی خود بھی فقط چند دینار کے عوض فروخت ہوا تھا، کم وسائل اور عددی کمتری کے باوجود بیبرس کو یہ معرکہ ہر حال میں جیتنا تھا۔ مسلمانوں کی سیاسی بقاء اور آزادی کو قائم رکھنے کے لیے آخری سپاہی، آخری تیر اور آخری سانس تک لڑائی لڑنی تھی ۔ طبل جنگ بجا، بد مست طاقت اور جنون کے درمیان گھسمان کا رن پڑا، طاقتور منگول جب اپنی تلوار چلاتے تھے تو ان کا وار روکنا مشکل ترین کام ہوتا تھا لیکن آج جب مملوک وار روکتے تو تلواریں ٹکرانے سے چنگاریاں نکلتیں اور پھر جب جوابی وار کرتے تو منگولوں کے لیے روکنا مشکل ہو جاتا۔

منگولوں نے مملوکوں کو دہشت زدہ کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن یہ وہ لشکر نہیں تھا جو مرعوب ہو جاتا۔ انہوں نے کبھی ایسے جنونی لشکر کا سامنا نہیں کیا تھا ۔ وہ پہلے پسپا ہوئے اور پھر انہونی ہوئی ، منگول میدان جنگ سے بھاگ کھڑے ہوئے، مملوکوں نے انہیں گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا، معاملہ یہاں تک پہنچا کہ بھاگتے منگولوں کو عام شہریوں نے بھی قتل کرنا شروع کر دیا۔ اور یہ وہم کہ ”منگول ناقابل شکست ہیں‘‘ ،”عین جالوت‘‘ کے میدان میں ہمیشہ کے لیے دفن ہو گیا۔ ”غلاموں‘‘ نے رکن الدین بیبرس کی قیادت میں مسلم سیاسی وجود کی جنگ جیت لی اور رہتی دنیا تک یہ اعزاز اپنے نام کر لیا۔ اس معرکے کے بعد منگول پیش قدمی نہ صرف رک گئی بلکہ آنے والے برسوں میں بیبرس نے منگول مفتوح علاقے بھی ان سے واپس چھین لیے۔

”فتوحات کا باپ‘‘: منگولوں کو عبرت ناک شکست دینے کے بعد دنیا بھر میں اس کی دھاک بیٹھ گی اور وہ ”ابوالفتح ‘‘ یعنی فتوحات کا ابو کہلایا۔ دنیا بھر میں ان کے نام کا ڈنکا بجتا تھا، منگول تو کیا اہل مغرب بھی ان کے نام سے ڈرتے تھے، رکن الدین بیبرس نے اپنی خداداد صلاحیت سے” منگول یوروپئن نیکسس‘‘ کو بھی توڑ ڈالا ۔ اور صلیبی جنگوں میں بھی فاتح رہا، فرانسیسی بادشاہ کنگ لوئیس نہم کو شکست دینے والی مصری فوج کا بھی کمانڈر تھا، اس نے کمزور اور کم ترقی یافتہ فوج کو بھی فرانسیسی بادشاہ کے سامنے کھڑا کر دیا اور انہیں بھاگنے پر مجبور کیا۔ مسلم دنیا اپنے اس عظیم ہیرو کے متعلق بہت کم جانتی ہے ایک ایسا ہیرو جس نے ان کے سیاسی وجود کی جنگ بڑی بے جگری سے لڑی، جس کی پشت پر کوئی قبیلہ بھی نہ تھا اور جو کبھی فقط چند دینار کے عوض بکا تھا لیکن جو مصائب کا مقابلہ کرنا جانتا تھا جو ہمت نہیں ہارتا تھا اور جو امید کا دامن کبھی بھی نہیں چھوڑتا تھا۔ ترکی النسل بیبرس کے نام کا مطلب ہے کہ امیر، لارڈ، نوبل،۔ یہ حکمران کے معنی میں بی لیا جاتا ہے۔ جبکہ چیتا اس کے عام معنی ہیں۔

غیر ملکی طاقت کا خاتمہ: ۔ اس کا دور شام اور مصر میں قائم مملکت کے تحفظ کے حوالے سے مثالی مانا جاتا ہے، جب اس نے خطے سے یورپی حملہ آوروں کے خوف کا خاتمہ کر دیا تھا۔ وہ ایک ڈھال تھا، اس نے ان علاقوں کو منگولوں اور صلیبی جنگوں کے شوقین مغربی حملہ آروں سے محفوظ بنا دیا تھا، خطے کو لوگ سکھ کا سانس لے سکتے تھے۔ یہی نہیں اس نے مصری سلطنت میں وسعت بھی پیدا کی۔ پیدائش ابتدائی زندگی اور بادشاہت: اس کے آباء او اجداد بحر اسود کے شمال میں واقع ”دشت کپ چک‘‘ کے باشندے تھے، تاہم پیدائش کی تاریخوں کے بارے میں کچھ ابہام پایا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے 12 دسمبر 1227ء سے 29 نومبر 1228ء کے درمیانی عرصے میں جنم لیا۔ بعض تاریخی کتب میں 1247ء میں اس کی عمر 24 برس درج ہے جس سے سن پیدائش 1223ء بنتا ہے۔ اس کا خاندان منگولوں کے قبیلے سے نکل کر 1242ء میں بلغاریہ پہنچا تھا، لیکن جلد ہی منگولوں نے بلغاریہ کو بھی سرنگوں کر لیا ، جنگ میں منگولوں نے اس کے والدین کو سنگنیوں کی نوک پر لے لیا۔ یہ وحشت ناک منظر وہ کبھی نہیں بھولا۔ بعد میں وہ دو بار بکا، اور یہ خرید و فروخت منگولوں کی موت کی بن گئی۔

پہلے یہ غلام ”سواس‘‘ کی غلام منڈی میں بیجا گیا۔ بعد ازاں وہ دوسری غلام منڈی ”ہما‘‘ میں فروخت ہوا، یہ اعلیٰ افسر الہ الدین ادیکن البندوکری اسے ترقی دینے کی نیت سے مصر لے آیا، لیکن قسمت میں ابھی اور سیکھنا لکھا تھا۔ کیونکہ جب اس کے آقا کو ہی حکمران مصر الصالح الایوب نے گرفتار کر لیا تو سبھی غلام بھی زیر حراست چلے گئے۔ بادشاہ ایوب نے بیبرس کو اپنی فوج کا کمانڈر بنا دیا۔ وہ غزہ کے مشرق میں لڑی جانے والی ‘جنگ لافوربی ‘ میں فاتح بن کر نکلا۔ :1260ء میں منگولوں کوعبرت ناک شکست دینے کے بعد وہ فاتح مصر بنا۔ سیف الدین قتوز جنگ میں گھائل ہونے کے بعد چل بسے۔ 24 اکتوبر کو اس کی رسم تاج پوشی ادا کی گئی، اس کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ تین بیٹوں میں سے دو تخت (السید الباراخ اور سلامیش ) نشین ہوئے ۔یوں ایک غلام نے مصر میں بھی سلطنت کی بنیاد رکھی۔

ایم آر ملک

بشکریہ دنیا نیوز

بیبرس : صلاح الدین ایوبی کی طرح مشہور ہوا

الملک الظاہر رکن الدین بیبرس بندقداری ایک قپچاق ترک تھے۔ ان کا لقب ابوالفتح تھا۔ وہ بحریہ مملوک سلسلۂ شاہی کے چوتھے سلطانِ مصر تھے۔ وہ دشتِ قپچاق میں ایک خانہ بدوش قبیلے میں پیدا ہوئے۔ قپچاق ترک عہد وسطیٰ میں یورپ و ایشیا کے درمیانی علاقے میں آباد تھے۔ انہوں نے 1260ء سے 1277ء تک حکمرانی کی۔ وہ ہلاکو خان اور غیاث الدین بلبن کے ہم عصر تھے۔ کہا جاتا ہے کہ بیبرس کو غلام بنا کر فروخت کیا گیا تھا۔ وہ ساتویں صلیبی جنگ میں فرانس کے لوئس نہم اورجنگ عین جالوت میں منگولوں کو شکست دینے والے لشکروں کے کمانڈر تھے۔

بغداد کو تباہ کرنے کے بعد جب ہلاکو خان کی فوجیں شام کی طرف بڑھیں تو بیبرس اور ایک مملوک سردار سیف الدین قطز نے مل کر عین جالوت کے مقام پر ان کو فیصلہ کن شکست دی اور منگول افواج کو نکال باہر کیا۔ بیبرس کا یہ بہت بڑا کارنامہ ہے کہ انہوں نے مصر و شام کو منگولوں کی تباہ کاریوں سے بچایا۔ انہوں نے مصری سلطنت کی شمالی سرحد ایشیائے کوچک کے وسطی علاقوں تک پہنچا دی۔ بیبرس کا ایک اور بڑا کارنامہ شام کے ساحل پر قابض یورپی حکومتوں کا زور توڑنا تھا۔ یہ حکومتیں پہلی صلیبی جنگ کے زمانے سے شام کے ساحلی شہروں پر قابض تھیں۔ نور الدین زنگی اور صلاح الدین ایوبی نے اگرچہ اندرون ملک اور فلسطین سے صلیبیوں کو نکال دیا تھا لیکن ساحلی شہروں پر ان کا اقتدار عرصے تک قائم رہا۔

ان کو بحری راستے سے یورپ سے معاونت میسر رہتی تھی۔ بیبرس نے عین جالوت میں منگولوں کے ساتھ اتحاد کرنے کی کوشش کرنے پر 1268ء میں مسیحی سلطنت انطاکیہ کا خاتمہ کیا۔ انطاکیہ کی سلطنت کا خاتمہ 1271ء میں نویں صلیبی جنگ کا باعث بنا جس کی قیادت انگلستان کے شاہ ایڈورڈ نے کی۔ مگر وہ بیبرس سے کوئی بھی علاقہ چھیننے میں ناکام رہا۔ بیبرس نے اپنی سلطنت کو جنوب میں سوڈان کی طرف بھی وسعت دی۔ اپنی ان فتوحات اور کارناموں کی وجہ سے بیبرس کا نام مصر و شام میں صلاح الدین ایوبی کی طرح مشہور ہوا۔

معروف آزاد

Jalal Uddin Shah Khwarzam

Jalal ad-Din Mingburnu   Jalal ad-Dunya wa ad-Din Abul-Muzaffar Manguberdi ibn Muhammad) or Manguberdi (Turkic for “Godgiven”), also known as Jalâl ad-Dîn Khwârazmshâh, was the last ruler of the Khwarezmian Empire. Following the defeat of his father, Ala ad-Din Muhammad II by Genghis Khan in 1220, Jalal ad-Din Mengübirti came to power but he rejected the title shah that his father had assumed and called himself simply sultan. Jalal ad-Din retreated with the remaining Khwarazm forces, while pursued by a Mongol army and at the battle of Parwan, north of Kabul, defeated the Mongols.[2]
 
Due to the Mongol invasion, the sacking of Samarkand and being deserted by his Afghan allies, Jalal ad-Din was forced to flee to India.[3] At the Indus River, however, the Mongols caught up with him and killed his forces along with thousands of refugees at the Battle of Indus. He escaped and sought asylum in the Sultanate of Delhi but Iltumish denied this to him in deference to the relationship with the Abbasid caliphs. Jalal ad-Din Mingburnu spent three years in exile in India. Mingburnu entered into an alliance with the Khokhars and captured Lahore and much of the Punjab. He requested an alliance with Iltutmish against the Mongols . The Sultan of Delhi refused, not wishing to get into a conflict with Genghis Khan and marched towards Lahore at the head of a large army. Mingburnu retreated from Lahore and moved towards Uchch inflicting a heavy defeat on its ruler Nasir-ud-Din Qabacha, and plundered Sindh and northern Gujarat before returning to Persia in 1224. [4]
 
He gathered an army and re-established a kingdom. He never consolidated his power however, and he spent the rest of his days struggling against the Mongols, pretenders to the throne and the Seljuk Turks of Rum. He lost his power over Persia in a battle against the Mongols in the Alborz mountains and fled to the Caucasus, to capture Azerbaijan in 1225, setting up their capital at Tabriz. In 1226 he attacked Georgia and sacked Tbilisi, destroying all the churches and massacring the city’s Christian population.[5]Jalal ad-Din had a brief victory over the Seljuks and captured the town Akhlat from Ayyubids. However, he was later defeated by Sultan Kayqubad I at Erzincan on the Upper Euphrates at the Battle of Yassıçemen (Yassi Chemen) in 1230, from where he escaped to Diyarbakir while the Mongols captured Azerbaijan in the ensuing confusion. He was murdered in 1231 in Diyarbakir by a Kurdish assassin hired by the Seljuks or possibly by Kurdish highwaymen.[6][7]
Enhanced by Zemanta

Ala-ud-din Khilji

Ala-ud-din Khilji  was the second ruler of the TurkoAfghan[2][3][4] Khilji dynasty in India. He is considered the most powerful ruler of the dynasty,[5] reigning from 1296 to 1316.[1][6]His attack on Chittor in 1303 CE to capture the queen of Chittor, Rani Padmini, the wife of King Rawal Ratan Singh and the subsequent story have been immortalized in the epic poem Padmavat, written by Malik Muhammad Jayasi in the Awadhi language in the year 1540.[7]He was a strategist and military commander who commanded forces across the Indian subcontinent. Sultan Ala-ud-din Khilji is also noted in history for being one of the few rulers in the world to have repeatedly defended his empire against Mongol invasions. He defeated large Mongol armies and then launched punitive expeditions against them in Central Asia, around modern-day Afghanistan

Mongol invasions  

Alauddin Khilji successfully defended his realm from the Mongol invasion. He improved the border’s fortifications and established garrisons. He defeated the Mongol armies at the battles of Jalandhar (1298), Kili (1299), Amroha (1305) and Ravi (1306).
“During his 20-year-long reign Ala al-Din Khalji conducted a number of campaigns that greatly expanded his authority. […] Threatened by the Mongol expansion from Central Asia, he successfully repelled several Mongol attacks on northwestern India between 1296 and 1308. […] The Mongol invasions in 1305 were also defeated, first at Amroha and then on the banks of Ravi River, allowing Ala al-Din to launch punitive expeditions into Mongol-controlled territories in Afghanistan.”[8]

North Indian expeditions

 
Alauddin Khilji sent two of his great generals Ulugh Khan and Nusrat Khan,to Gujarat, which was conquered and annexed. Nusrat Khan started for Gujarat from Delhi on February 24, 1299 AD, Ulugh Khan started from Sindh and joined Nusrat Khan near Chittorgarh. Malik Kafur a slave, was bought for 1000 Dinars. He rose to position of general in the army.KING Karan flied with his daughter Devaladevi but his wife Kamala Devi was seized by Alauddin Khalji’s general but on the way back to Delhi on reaching Jhalore the queen was released by Devda Rajput of Jhalore and King Karan’s general. They fled from there in jungle to reach Baglan but on the way, the queen died due to serious wound caused while escaping.

Ranathambor

In 1290 Jalaluddin Khilji attacked Ranthambhore but was repulsed. Hamir Dev, a descendant of Prithviraj Chauhan ruled Ranthambor. Seventeen kilometers from Sawaimadhopur stands a fort, encompassing in its stately walls, a glorious history of the Rajputs. Ranathambhor’s venerable structure, rapturous beauty and sublime expressiveness seem to be continuously vocalizing the great legends of Hamir Dev, the Indian king, who ruled in the 13th century. Hamir Dev belonged to the Chauhan dynasty and drew his lineage from Prithviraj Chauhan who enjoys a respectable place in the Indian history. During his 12 years’ reign, Hamir Dev fought 17 battles and won 13 of them. He annexed Malwa, Abu and Mandalgarh and thus extended his kingdom to the chagrin of Delhi Sultan, Jalal ud din Firuz Khilji, who had misgivings about Hamir’s intentions. Jalaluddin attacked Ranathambhor and had it under siege for several years. However, he had to return to Delhi unsuccessful.
 
Jalaluddin was assassinated by his nephew Allaluddin Khilji who then crowned himself as the new Sultan of Delhi. Muhammad Shah was instrumental in making this coup successful which earned him a basketful of privileges. Muhammad Shah was even allowed access to the harem as a result of which he soon built up a good rapport with its inmates. Chimna was one of Allaudin’s begums, but Allaudin never gave her as much attention as other begums of the harem received from him. He had inadvertently managed to antagonize her. To make things worse Chimna Begum saw a valiant soldier in Muhammad Shah and was extremely impressed by his courage and boldness. Soon the vindictive begum and the ambitious Muhammad Shah started a conspiracy to slay Allaudin.
 
Their objective was to see Muhammad Shah as Sultan and the begum as queen. The conspiratorial plans somehow leaked out. Allaudin was enraged as he came to know of Muhammad Shah’s intentions. To escape the fury of Allaudin, Muhammad Shah had to flee from Delhi along with his brother. He sought asylum in many nearby kingdom but no one was ready to stand up to the wrath of Allaudin. Muhammad Shah approached Hamir Dev. The brave Rajput was moved by his humble pleading and misery and agreed to him shelter. Allaudin’s ire was roused when he came to know of it. He immediately attacked the fort of Ranathambhor. The armies of Allaudin and Hamir Dev met in a battle on the banks of river Banas. The Rajputs had the initial victory. However, because of the personal feud between the Prime Minister and the Senapati (General-in-charge of the army) Hamir Dev’s army got disorganized.
 
The Senapati of the army was Gurdan Saini.[1] The Prime Minister succeeded in getting the Senapati killed. Meanwhile, Allaudin reorganized his forces and made a renewed attack on the fort. Some unscrupulous officers of Hamir Dev, with Bhoj Dev as their leader, colluded with Allaudin and started giving him secret information about the fort. The war continued. The strong walls of the fort were strategically so situated that it was not possible to blow them down with gunpower, for the debris so created had already killed numerous soldiers of the Sultan in their futile attempt to break into the fort. At last Allaudin sent a message to Hamir Dev saying that in case he was ready to hand over Muhammad Shah to him, he would go back to Delhi. Hamir Dev was too self-respecting to make such an ignominious compromise. He sent back the messenger with the reply that when the Rajputs promised to protect someone, they even gave their lives for his safety. Muhammad Shah saw the hopelessness of the situation and conselled Hamir Dev to hand him over to Allaudin rather than fight such a long drawn-out war and suffer such an enormous loss of lives and resources. Allaudin’s army was immense.
 
He put a complete siege on the Ranathambhor fort. Bhoj Dev and his informers kept on supplying him information on the food of water situation inside the fort. The ill-fated war bended with the Sultan’s legions emerging victorious. The female members of the Rajput kingdom committed jauhar and gave up lives on the pyres. Hamir Dev, along with his Rajput bravehearts decided to perform shaka that is the fight unto death. After the victory, Allaudin entered the fort. Wounded Muhammad Shah was brought to him. “What is your last desire?” asked Allaudin. “To kill you and place Hamir’s son on the throne of Ranathambhor”, replied Muhammad Shah. Then he took out his dagger and committed suicide.
 
Allaudin, now, turned to Bhoj Dev and his other informers. Their faces were keen with eagerness to receive the long awaited reward from the Sultan. On the countrary, Allaudin roared, “Shave of the heads of these traitors. They have not been loyal to their own king”. Within minutes, the heads of all his accomplices rolled on the ground. Allaudin’s laughter reverberated against the walls of the fort. After Khilji the fort once again passed on to the Rajput rulers..[8][9][10]
Enhanced by Zemanta

Rukn al-Din Baibars

Baibars  (1223 – 1 July 1277) was the fourth Sultan of Egypt from the Mamluk Bahri dynasty. He was one of the commanders of the Egyptian forces that inflicted a devastating defeat on the Seventh Crusade of King Louis IX of France. He also led the vanguard of the Egyptian army at the Battle of Ain Jalut in 1260,[2] which marked the first substantial defeat of the Mongol army, and is considered a turning point in history.[3] Baibars’ reign marked the start of an age of Mamluk dominance in the Eastern Mediterranean, and solidified the durability of their military system. He managed to pave the way for the end of the Crusader presence in the Levant, and reinforced the union of Egypt and Syria as the region’s pre-eminent Arab and Muslim state, able to fend off threats from both Crusaders and Mongols. As Sultan, Baibars also engaged in a combination of diplomacy and military action, which allowed the Mamluks of Egypt to greatly expand their empire.

Early life

Born in the Dasht-I-Kipchak, between rivers of Edil (Volga) and Yaiyk (Ural), Baibars was a Turkic Kipchak/Cuman (from Berish tribe, that currently lives in Kazakhstan).[4][5][6][7][8][9] He was fair-skinned, blond,[10] very tall and had a cataract in one of his bluish eyes. It was said that he was captured by the Mongols[citation needed] in the Kipchak steppe and sold as a slave, ending up in Syria.
Baibars was quickly sold to a Mamluk officer called Aydekin al bondouqdar, and sent to Egypt, where he became a bodyguard to the Ayyubid ruler As-Salih Ayyub.

Rise to power

Baibars was a commander of the Mamluks in around 1250, when he defeated the Seventh Crusade of Louis IX of France. He was still a commander under Sultan Qutuz at the Battle of Ain Jalut in 1260, when he decisively defeated the Mongols. After the battle, Sultan Qutuz (aka Koetoez) was assassinated while on a hunting expedition. It was said that Baibars was involved in the assassination because he expected to be rewarded with the governorship of Aleppo for his military success; but Qutuz, fearing his ambition, refused to give such a post and disappointed him.[11] Baibars succeeded Qutuz as Sultan of Egypt.[12]

Sultan of Egypt

He continued what was to become a lifelong struggle against the Crusader kingdoms in Syria, starting with the Principality of Antioch, which had become a vassal state of the Mongols, and participated in attacks against Islamic targets in Damascus and Syria.
In 1263, Baibars attacked Acre, the capital of the remnant of the Kingdom of Jerusalem, but was unable to take it. Nevertheless, he defeated the Crusaders in many other battles (Arsuf, Athlith, Haifa, Safad, Jaffa, Ashkalon, Caesarea).
In 1266 Baibars invaded the Christian country of Cilician Armenia, which, under King Hethum I, had submitted to the Mongol Empire. This isolated Antioch and Tripoli, led by Hetum’s son-in-law, Prince Bohemond VI. In 1268, Baibars besieged Antioch, capturing the city on 18 May. Baibars had promised to spare the lives of the inhabitants, but broke his promise and had the city razed, killing or enslaving the population upon surrender.[13] This tactic was common in Baibars’ campaigns, and was largely responsible for the swiftness of his victories.[citation needed]
 
Baibars then turned his attention to Tripoli, but interrupted his siege there to call a truce in May 1271. The fall of Antioch had led to the brief Ninth Crusade, led by Prince Edward of England, who arrived in Acre in May 1271 and attempted to ally with the Mongols against Baibars. So Baibars declared a truce with Tripoli, as well as with Edward (who was never able to capture any territory from Baibars anyway). According to some reports, Baibars tried to have Edward assassinated with poison, but Edward survived the attempt, and returned home in 1272.
In 1277, Baibars invaded the Seljuq Sultanate of Rûm, then dominated by the Mongols. He defeated a Mongol army at the Battle of Elbistan, captured the city of Kayseri, but was unable to hold any of his Anatolian conquests and quickly withdrew to Syria.

Death

Baibars died in Damascus on 1 July 1277. His demise has been the subject of some academic speculation. Many sources agree that he died from drinking poisoned kumis that was intended for someone else. Other accounts suggest that he may have died from a wound while campaigning, or from illness.[14] He was buried in the Az-Zahiriyah Library in Damascus.[15]

Family

Baibars married several women and had seven daughters and three sons. Two of his sons, al-Said Barakah and Solamish, became sultans.

Assessment

As the first Sultan of the Bahri Mamluk dynasty, Baibars made the meritocratic ascent up the ranks of Mamluk society. He took final control after the assassination of Sultan Sayf al Din Qutuz, but before he became Sultan he was the commander of the Mamluk forces in the most important battle of the Middle Periods, repelling a Mongol force at the legendary Battle of Ain Jalut in 1260.[16] Although in the Muslim World he has been considered a national hero for centuries, and in Egypt, Syria and Kazakhstan is still regarded as such, Sultan Baibars was reviled in the Christian world of the time for his seemingly unending victorious campaigns. A Templar knight who fought in the Seventh Crusade lamented:
Rage and sorrow are seated in my heart…so firmly that I scarce dare to stay alive. It seems that God wishes to support the Turks to our loss…ah, lord God…alas, the realm of the East has lost so much that it will never be able to rise up again. They will make a Mosque of Holy Mary’s convent, and since the theft pleases her Son, who should weep at this, we are forced to comply as well…Anyone who wishes to fight the Turks is mad, for Jesus Christ does not fight them any more. They have conquered, they will conquer. For every day they drive us down, knowing that God, who was awake, sleeps now, and Muhammad waxes powerful.[17]
Baibars also played an important role in bringing the Mongols to Islam. He developed strong ties with the Mongols of the Golden Horde and took steps for the Golden Horde Mongols to travel to Egypt. The arrival of the Golden Horde Mongols to Egypt resulted in a significant number of Mongols accepting Islam.[18]
Enhanced by Zemanta